بابا محمد بشیرکی 88 سال عمر ہوچکی۔ پاکستان اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے ہوئے دیکھا۔ کپکپاتے ہاتھوں کو بھی ہلاتے جب گفتگو کرتے چہرہ ایسے جیسے صدیوں کی تاریخ جانتے ہیں۔ قائد اعظم کے تین جلسے دیکھ چکے ہیں۔ بولے اتنے بڑے مجمعے میں سمجھ تو کم ہی آتی تھی مگر بعد ازاں پڑھے لکھے لوگوں سے تفصیل مل جاتی تھی ان کی باتیں وعدے ان کی شخصیت کی طرح سچے تھے آج ہم سے پانچ مرلے کا مکان نہیں بنتا انہوں نے اتنا بڑا ملک بنا کر دے دیا۔ بھرائی آواز میں بولے کاش وہ 10یا20 سال مزید زندہ رہتے چونکہ ہمیں پاکستان کے بعد بھی ایک تحریک چلانی چاہیے تھی۔ تعمیر پاکستان اور وہ اس کی قیادت کرتے وہ فرید کوٹ کے رہنے والے تھے۔ دو بھائی ایک بہن ایک پھپھو ہجرت کی وحشت کی نذر ہو گئے ۔فرمانے لگے اگر یہ ملک نہ بنتا تو آج ہم اپنی علیحدہ شناخت ہی سے محروم رہتے کوئی اچھی نوکری اچھا مقام ہمیں نہ ملتا۔ معترض تھے تو اس ملک کے حکمرانوں پر کہنے لگے چپڑاسی سے لے کر صدر پاکستان تک بلکہ میں خود بھی ذمہ دار ہوں ہم سب اپنی اپنی سوچوں تک اپنے اپنے نظریات تک کیوں محدود ہو گئے۔ اجازت لیکر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور باہر جا کر سوچنے لگا۔ آج ہر شخص اپنے مفادات تک محدود ہو چکا ہے۔ ایسے معاشرہ اور ملک تھوڑی بنتا ہے۔ کیا بدلا ہے ان 76 سال میں۔ ہماری ایسی خواہش کیوں ہے کہ ایک دم سے یہ ملک ترقی کر جائے گا، کیسے کر جائے گا۔ عمران، زرداری نواز شریف اور ہم نوا سینے پر ہاتھ مار کر دعوی کریں گے کہ ہم بدلیں گے۔ بس جونہی اقتدار میں آئیں گے عوام کو نوید سنائیں گے سو دنوں میں فرق محسوس ہوگا اور پھر ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مجبور کیا گیا۔ سمجھوتے کرنے پڑے اور پھر ہمیں فارغ کر دیا گیا آخر یہ ہو کیا رہا ہے کوئی غور کیوں نہیں کرتا اس صورتحال کا کیا نقصان ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے پتہ نہیں کب تک ہوتا رہے گا۔ جب قوم اکتاہٹ محسوس نہیں کرتی تو یہ کیوں کر کریں گے۔ ہمارے ہاں ایسے عہدے ملنا اللہ کا خاص کرم سمجھا جاتا ہے۔ مبارکیں مٹھائیاں شکرانے کے نوافل ادا ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسرے فریق کے چہرے اترے ہوتے ہیں اور پھر پوری کوشش ہوتی ہے کہ انہیں چلنے نہیں دینا چاہے،کچھ بھی ہو جائے۔ کتنے سال ہو گئے یہ بجلی کا بحران کیوں حل نہیں کر سکے کھربوں روپے کی عوام مصنوعی بجلی سولر بیٹریاں استعمال کر چکے ہیں ۔ اتنے پیسوں سے تو ہم بجلی پیدا کر کے مفت استعمال بھی کر رہے ہوتے اور اسے بیچ بھی رہے ہوتے عام آدمی بھی کم از کم اب تک ایک لاکھ کے اوپر مصنوعی بجلی پر خرچ کر چکا ہے۔ امیر طبقے کا تو کیا کہنا یہ کس کی غلطی ہے کون لوگ تھے اس میں رکاوٹ ڈالنے والے جنہوں نے کھربوں کما لیے۔ ان سے کون پوچھے، کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ ریلوے کیوں تباہ حال ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا کھربوں کیسے کما گیا۔ ٹرانسپورٹ مافیا سے کون پوچھے ریلوے کیوں تباہ حال ہے انٹرنیشنل معیار کی ائیر لائن کیوں تباہ حال ہے۔ عالمی ایئر لائنز کھربوں روپیہ کیسے کما گئیں۔ کوئی ان ایئر لائنز سے پوچھے پی آئی اے کیوں تباہ ہوئی کس کو معلوم نہیں کہ اس ملک میں عہدے تعیناتیاں تبادلے تک کیسے ہوتے ہیں۔ پٹواری، ایس ایچ او اور اس سے اوپر تک کیا کچھ ہوتا ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی چیز خالص ملتی ہے۔ دودھ اتنا ہے کہ اس ملک میں اتنے جانور نہیں حد تو یہ ہے کہ اس ملک میں اتنا شہد پڑا ہے کہ پوری دنیا میں اتنی شہد پیدا کرنے والی مکھیاں نہیں ہوں گی۔ جعلی دودھ ایسے بنتا ہے کہ اس سے دہی مکھن دیسی گھی اور کھویا تک نکل رہا ہوتا ہے عالمی سائنس دانوں کو دعوت دی جانی چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہوا ہے سرکاری ملازمین گھروں میں بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔ مطلب کام پر گئے تو لباس سے اندازہ ہو جاتا ہے کتنی محنت کی گئی۔ پرائیویٹ کمپنیاں کمیشن اور گھٹیا معیار سرعام فروخت کر رہی ہیں۔ پچھلے دنوں جعلی انجیکشن کیوجہ سے کتنے لوگ بینائی سے محروم ہو گئے۔ روزانہ فوڈ اتھارٹی گھٹیا ناقص زائد المیاد مواد ضائع کر رہی ہوتی ہے اور پھر وہی لوگ نام مقام بدل کر شروع ہو جاتے ہیں۔ ریاست کی عملداری ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں زرعی زمینوں کو کھا رہی ہیں صرف چند لوگوں کے درمیان سرمایہ گھوم رہا ہوتا ہے اور اسی دائرے میں کوئی لالچی آجاتا ہے۔ ایک مثال مشہور ہے جب تک لالچی موجود ہیں ٹھگ بھوکے نہیں مر سکتے۔ سڑکیں گلیاں سیوریج تباہی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ خوفناک بیماریاں پھیل رہی ہیں کسی سے اب کچھ پوشیدہ رہ گیا ہے پھر حل کی طرف کیوں پیش قدمی نظر نہیں آتی۔ مزید کس بات کا انتظار ہے؟ معاشی بحران نے سب سے خوفناک قدغن شرم و حیا رشتوں کے تقدس کو دائو لگا دیا ہے ہر شخص خود غرضی میں مبتلا ہو چکا ہے۔ نوجوانوں میں نشہ اور اخلاقی بیماریاں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں ۔یہ کون سا وقت آگیا ہے۔ عمر رسیدہ لوگوں کی تنہائی اور بے بسی دیکھی نہیں جاتی بچوں کے زرد پیلے چہرے ماؤں سے دیکھے نہیں جاتے۔ کاش کسی کے بس میں ہو کہ نواز شریف، زرداری اور عمران خان کو کسی کریانے کی دکان میں لے جائے انہیں ادھار کا کھاتہ دکھایا جائے کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام لکھے ہوں گے۔ کسی غریب بستی میں لیجایا جائے کسی ایک گھر میں ہی لے جائیں۔ بغیر پلستر کے دیواریں ٹوٹا ہوا دروازہ دکھایا جائے۔ بچوں کے پہنے ہوئے کپڑے دکھائے جائیں ٹوٹی ہوئی چارپائیاں دکھا ئی جائیں۔ انہیں اس جوان بیٹی کا بجا ہوا چہرہ اور بکھری ہوئی زلفیں دکھائیں جنہیں پیوند لگا دوپٹہ بھی ڈھانپنے سے قاصر ہے اور اس گھر کا سربراہ ان تینوں کو بتائے کہ آخری بار ان کے گھر میں گوشت کب پکا تھا۔