میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! ’’اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے‘‘ یہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک صیہونی مصنف (Arishavit) کے تازہ ترین مضمون کا عنوان ہے جو ’’عبرانی اخبار(Harvet) نے شائع کیا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں ایسا لگتا ہے ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے لئے پہچان اور الگ شناخت کے سوا کوئی حل نہیں، ان کے حقوق کو بحال اور ناجائز قبضے کو ختم کرنا ہو گا۔شبیت نے اپنے مضمون کا اآغاز یہ کہتے ہوئے کیا:ایسا لگتا ہے ہم واپسی کے نقطے سے گزر چکے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ’’اسرائیل‘‘ کے لئے قبضہ ختم کرنا‘ تصفیہ روکنا اور امن کا حصول ممکن نہ رہے‘ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں صیہونیت کی اصلاح‘ جمہوریت کو بچانا اور عوام کو تقسیم کرنا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو اس ملک میں جینے کا کوئی لطف نہیں نہ ہی بارٹز میں لکھنے کا ذوق ہے نہ ہی اس میں پڑھنے کا مزہ۔ ہمیں وہی کرنا چاہیے جو ’’روجیل الفر‘‘ نے دو سال پہلے تجویز کیا تھا جو کہ اس ملک کو چھوڑنا ہے‘ اگر ’’اسرائیلیت‘‘ اور یہودیت کی شناخت میں اہم عنصر نہیں ہیں اور اگر اسرائیلی شہری کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہے تو نہ صرف تکنیکی بلکہ نفسیاتی اعتبار سے بھی بات ختم ہو جاتی ہے، آپ کو اپنے دوستوں کو الوداع کہہ کر سان فرانسسکو ‘ برلن یا پیرس چلے جانا چاہیے وہاں سے نئی جرمن انتہا پسند قوم پرستی کی سرزمین سے کسی کو سکون سے سوچنا اور ریاست اسرائیل کو آخری سانسیں لیتے دیکھنا چاہیے۔ شاید ابھی تک مسئلہ حل نہیںہوا، شاید ابھی تک پوائنٹ آف نو ریٹرن سے نہیں گزرے ہوں گے۔ قبضہ ختم کرنا آباد کاری روکنا صیہونیت کی اصلاح جمہوریت کو بچانا اور ملک کو تقسیم کرنا اب بھی ممکن ہے۔ میں نے نیتن یاہو‘ لائبرمین اور نونازیوں کی آنکھوں میں انگلی ڈالی تاکہ انہیں صیہونی فریب سے جگایا جا سکے۔ ٹرمپ ’ بائیڈن‘ اوباما اور ہیلری کلنٹن وہ نہیں ہیں جو قبضہ ختم کر دیں۔ یہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی نہیں ہے جو ناجائز بسائی جانے والی بستیوں کو روکیں، دنیا کی واحد طاقت جو اسرائیل کو اپنے آپ سے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ خود اسرائیلی ہیں۔ ایک نئی سیاسی سوچ کے ساتھ جو حقیقت کو تسلیم کرے اور یہ کہ فلسطینیوں کی جڑیں اسی سرزمین میں ہیں‘ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ یہاں زندہ رہنے کے لئے مریں نہیں زندہ رہنے کے لئے تیسرا راستہ تلاش کریں۔اخبار کے مصنف نے تصدیق کی کہ جب سے وہ فلسطین آئے ہیں ’’اسرائیلیوں‘‘ نے محسوس کیا ہے کہ وہ صیہونی تحریک کی طرف سے پیدا کردہ ایک جھوٹ کا نتیجہ ہیں۔جس کے دوران اس نے پوری تاریخ میں یہودی کردار کے بارے میں صرف دھوکہ دہی کا استعمال کیا ہے۔ ہٹلر نے جس کو ’’ہولو کاسٹ‘‘ کہا تھا اس کا استحصال اور مبالغہ آرائی کر کے تحریک دنیا کو باور کرانے میں کامیاب رہی کہ فلسطین ’’وعدہ شدہ زمین‘‘ ہے اور یہ کہ ہیکل سلیمانی مسجد اقصیٰ کے نیچے واقع ہے‘ اس طرح بھیڑیا ایک بھیڑ کے بچے میں تبدیل ہو گیا جسے امریکی اور یورپی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے دودھ پلایا گیا یہاں تک کہ وہ ’’ایٹمی عفریت‘‘ بن گیا۔ مصنف نے مغربی اور یہودی ماہرین آثار قدیمہ سے مدد طلب کی جن میں سب سے مشہور ’’تل ابیب یونیورسٹی کے اسرائیل فلنٹسٹائن‘ ہیں انہوں نے تصدیق کی کہ ہیکل بھی جھوٹ اور پریوں کی کہانی ہے جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں تمام کھدائیوں سے یہ ثابت ہوا کہ ہزاروں سال پہلے یہ مکمل طور پر غائب ہو گیا تھا ۔واضح طور پر یہودی حوالوں میں بیان کیا گیا ہے اور مغربی ماہرین آثار قدیمہ نے تصدیق کی ہے۔ ان میں آخری 1968ء میں برطانوی ماہر ڈاکٹر کیٹلن کابینوس‘ جب وہ یروشلم میں برٹس سکول آف آرکیالوجی میں کھدائی کی ڈائریکٹر تھیں اس نے یروشلم میں کھدائیاں کیں اور مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے نشانات کی موجودگی کے بارے میں اسرائیلی خرافات کو بے نقاب کیا جس پر انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے زور دے کر کہ یہ وہی جھوٹ کی لعنت ہے جو اسرائیلیوں کو ستاتی ہے۔ ’’اسرائیلیوں‘‘ کو احساس ہے کہ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ یہ ایسی سرزمین نہیں ہے جس سے انہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ یہاں ایک اور مصنف جو نہ صرف فلسطینی عوام کے وجود کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اسرائیلیوں پر ان کی برتری بھی مانتا ہے ایسا لگتا ہے فلسطینیوں کی فطرت باقی انسانوں سے مختلف ہے۔ہم نے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور ان کے نوجوانوں کو طوائف اور منشیات کے عادی کہا ہم نے سوچا چند سال گزرنے پر یہ اپنے وطن‘ اپنی سرزمین کو بھول جائیں گے پھر ان کی نوجوان نسل نے 1987ء کے انتفاضہ کا دھماکہ کر دیا ہم نے انہیں جیلوں میں بند کر دیا کہ یہیں زندگی گزاریں‘ اب ہم نے برسوں بعد خیال کیا انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے وہ 2000ء میں مسلح بغاوت کے ساتھ زمین کھود کر ہمارے مقابل آئے۔ ہم نے کہا ان کے گھروں کو مسمار کر دیں اور کئی سال تک ان کے گھروں کو محصور رکھیں پھر بھی انہوں نے محاصرے اور تباہی کے باوجود ہمیں نشانہ بنانے کے لئے ناممکن میزائل نکالے، ہم نے ان کے لئے دیواروں اور خاردار تاروں سے منصوبہ بندی شروع کی پھر وہ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے ہمارے سامنے آن کھڑے ہوئے‘ یہاں تک کہ انہوں نے آخری جنگ میں ہمیں ہلاک کر ڈالا۔ ہم نے اپنی منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے ان کا مقابلہ کیا اور انہوں نے ’’اسرائیل‘‘ سیٹلائٹ (Amos) پر قبضہ کر لیا وہ دھمکیاں دیتے اور دھمکیوں کو نشہ کر کے ’’اسرائیل‘‘ کے ہر گھر میں دہشت پھیلاتے ہیں جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے جب ان کے نوجوان ’’اسرائیلی‘‘ چینل 2پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مختصر یہ کہ ایسا لگتا ہے ہم تاریخ کے سب سے مشکل لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں! اور ان کے لئے اپنے حقوق پہچاننے اور ناجائز قبضہ ختم کروانے کے سوا کوئی حل نہیں ہے!