گزشتہ دنوں چند روز جنرل ہسپتال کے ہڈی و جوڑ وارڈ میں گزارنا پڑے تو یہ بات سمجھ آئی کہ بڑے بزرگ ’’خدا تجھے ہسپتال اور کچہری سے بچائے رکھے‘‘ دعا کیوں دیتے تھے۔آئین میں تمام شہریوں کو مفت تعلیم صحت اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی ضمانت تو لکھ دی گئی حکومت صحت کارڈ کے ذریعے 10لاکھ تک مفت علاج کا ڈھنڈورا پیٹتے بھی نہیں تھکتی۔ مگر غریب کس طرح ہسپتال میں موت کے لئے دعائیں مانگتے ہیں یہ دیکھنے کی فرصت حکمرانوں کو ہے نا ہی ہسپتال انتظامیہ کو۔صوبائی دارالحکومت لاہور کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے علاوہ پورے پنجاب یہاں تک کہ افغانستان کے مریض بھی علاج کے لئے لاہور کے ہی پانچ بڑے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں سب سے پہلے مریض اور اس کے لواحقین کو ہسپتال پارکنگ مافیا سے واسطہ پڑتا ہے تقریباً ہر ہسپتال میں موٹر سائیکل 10روپے کار 30روپے پارکنگ فیس کے ریٹ کے فلیکس نمایاں مقامات پر لگے ہیں مگر ہر ہسپتال میں ہی پارکنگ مافیا نہ صرف موٹر سائیکل کے 20 روپے اور کار کے 100روپے چارج کر رہاہے بلکہ جو ٹوکن دیا جاتا ہے اس پر بھی موٹر سائیکل 20 روپے کار 50روپے کا درج ہے۔ مریض کے لواحقین کو کم از کم تین بار ہر روز ہسپتال جانا پڑتا ہے اس لئے اگر موٹر سائیکل ہے تو ان کے پاس 60روپے ہونے چاہئیں۔ پارکنگ کے بعد ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو ایمرجنسی میں بلا شبہ تمام ادویات اور ٹیسٹوں کی مفت سہولت میسر ہے مگر آئوٹ ڈور میں مریض چیک کروانا ہو تو پہلے پرچی بنوانا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آئوٹ ڈور کی پرچی کے لئے پہلے گھنٹوں لائن پھر ڈاکٹر سے چیک کروانے کے لئے طویل انتظار کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ پرچی کی لائن میں مریض گھنٹوں گرمی اور حبس کی وجہ سے پسینے سے شرابور اپنی باری کے انتظار کی اذیت برداشت کرتے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کو اتنی بھی زحمت گوارا نہیں کہ جنرل ہسپتال کی طرح کم از کم ہر شعبہ کے لئے پرچی کے لئے الگ الگ کونٹئر ہی بنا دیے تاکہ مریض آسانی سے پرچی بنا کر اپنے ڈاکٹر کو چیک کروا سکیں۔ مریض ڈاکٹر تک پہنچنے تک زندہ رہے تو ڈاکٹر مریض کو چیک کرنے کے بعد مرض کی تشخیص کے لئے ٹیسٹ لکھ کر دیتا ہے جس کی بازار سے کم سہی مگر مریض کو اپنی جیب سے ادائیگی کرنا پڑتی ہے یہ درست ہے کہ ہسپتال انتظامیہ نے غریب مریضوں کو آدھی یا سوفیصد فری ٹیسٹ کی سہولت بھی فراہم کر رکھی ہے مگر اس سے محض پانچ فیصد لوگ بھی استفادہ نہیں کر پاتے ہیں۔ جنرل ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر خالد تک جو مریض پہنچ جائے اس کو فیس میں 50فیصد رعائت مل جاتی ہے۔ تشخیص کے بعد اگر مریض داخل ہو جائے تو وارڈ میں پہلے تو مریض کو بیڈ کے حصول کے لئے جتن کرنا پڑتے ہیں بیڈ مل گیا تو آپریشن کے انتظار کی سولی ۔ جنرل ہسپتال کے ہڈی و جوڑ ہسپتال میں ڈاکٹر حسنین کے کمرے میں بروقت درجنوں مریض موجود ہوتے ہیں ڈاکٹر اپنا کام جتنا بھی جانفشانی سے کریں ہسپتال عملے کی نگاہیں ہر وقت مریض کے لواحقین کی جیب پر ہوتی ہیں۔ ہسپتال میں ہر روز کم از دو بار ڈاکٹر مریض کے بیڈ پر پر آتے ہیں صبح 10بجے کنسلٹنٹ کا رائونڈ بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کے بہترین علاج میں اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیںمگر ڈاکٹر کا کام علاج کرنا ہے سہولیات کی فراہمی حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ ہسپتال انتظامیہ اگر اخلاص اور دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دے تو مریض کو انہی وسائل میں مناسب سہولیات میسر آ سکتی ہیں۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو پارکنگ کے ٹھیکے مافیاز کو دینے کے بجائے سرکاری پارکنگ کمپنی کے حوالے کرنے کا پابند کرکے مریضوں کو پارکنگ مافیاز کے ہاتھوں لٹنے سے بچا سکتے ہیں۔ دوسرے پنجاب میں تمام مریضوں کو صحت کارڈ پر مفت علاج اور ٹیسٹوں کی سہولت میسر ہے۔ حکومت پرائیوٹ ہسپتالوں کو اربوں روپے کی ادائیگی بھی کرنے کے دعوے کرتی ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لئے جو مشینری اور آلات موجود ہیں پرائیویٹ ہسپتالوں کے لئے ایسے خریدنا ممکن ہی نہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال بہتر ماحول اور حسن سلوک کی وجہ سے اربوں کما رہے ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اگر تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو ہسپتال میں داخل تمام مریضوں کو داخلے کے وقت ہی صحت کارڈ کی سہولت میں رجسٹرکرنے کا پابند کر دیں تو مریضوں کو صحت کارڈ کے ذریعے مفت ٹیسٹوں اور ادویات کی سہولت مفت میسر آنے کے ساتھ ہسپتال کی آمدن میں بھی اضافہ ہو سکتاہے۔ مزید یہ کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر صحت کی یقین دہانی کے باوجود ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر مریض کو دل کے سٹنٹ اورہڈی وارڈ میں پلانٹس دانستہ طور پر مہیا نہیں کئے جا رہے۔ جس کی وجہ سے لوگ نجی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سرکاری ہسپتالوں میں مریض کو ڈلنے والے پلانٹس کی صحت کارڈ پر فراہمی کو یقینی بنا کر نا صرف ہزاروں مریضوں کو بے موت مرنے سے بچا سکتے ہیں بلکہ سرکاری ہسپتال بھی نجی اداروں کی طرح انشورنس کمپنی سے اربوں روپے کما سکتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایک اہم مسئلہ مریض کے لواحقین کا علاج کے بارے میں لاعلمی کے باعث اذیت کے شکار رہتے ہیں اور ان کی تشویش بلا جواز بھی نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ ہر مریض کو اس کے علاج کے بارے میں تفصیل سے بتائے اور مریض اور اس کے لواحقین کو مطمئن کر سکے اس لئے بہتر ہو گا وزیر اعلیٰ ہسپتال میں ہر وارڈ میں مریضوں کی سہولت کے لئے ایک کونسلر مقرر کریں جو مریضوں کی کونسلنگ اور لواحقین کی علاج کے دوران معاونت اور رہنمائی کرکے ان کو بلا جواز خواری سے بچا سکتے ہیں۔ حکومت کو سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں کلنیکل سائیکالوجی پڑھنے والے ہزاروں طلبہ و طالبات اس کام کے لئے آسانی سے میسر آ سکتے ہیں ضرورت صرف پالیسی بنانے اور حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کی خلوص نیت کی ہے ۔