مقامِ مُسرت ہے کہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں محکمہ اوقاف کی طباعتی خدمات کوڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے موضوع تحقیق بنایا اور اس وقیع عنوان کو احاطۂ تحقیق میں لاکر، ایک جامع تحقیقی مقالہ تحریر کرنے پر علامہ میر آصف اکبر، پی ایچ ڈی کے حق دار قرار پائے،جس طرح سول سروس میں ایک اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی ہوتی ہے،اسی طرح دانشگاہوں اور جامعات کی بھی ایک بیوروکریسی ہے،جو علمی و تحقیقی عنوانات و موضوعات اور خدمات و تحقیقات پراپنا حق فائق سمجھتی اور خود ہی کو معروف اور معتبر جانتی اور مانتی ہے،ایسے میں کسی انتظامی محکمہ کے مختلف شعبوں میں سے محض ایک گوشے کا پی ایچ ڈی کے لیے موضوع تحقیق بننا، ایک اہم بات ہے ۔’’یونیورسٹی تھیسز‘‘ کی ہر دور میں ہی بڑی اہمیت رہی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معین میدان میں ایسی منظم سعی و کوشش، جس کا مقصد اصل حقائق اور صحیح اصولوں کی دریافت ہو ، نیز یہ کہ دقیق اور منضبط مطالعہ، جس کا ہدف کسی مسئلے یا معاملے کی وضاحت یا اس کا حل ہو یاایسی منظم جستجو اور کھوج جس میں علمی حقائق کے لیے متعین شدہ مختلف اسالیب اور علمی مناہج اختیار کیے جاتے ہیں ، جس کا مقصود، اِن علمی حقائق کی صحت اور ان کی تحقیق و تدوین اور پھر ان میں تر میم و اضافہ ہے،جس سے نتائج کا حصول بھی ممکن ہو۔ تحقیقی مقالہ ایک مضبوط اور مبسوط علمی دستاویز ہے جس پر مکمل طور پر اعتبار کیا جاسکتا ہے ، اور کیا جانا بھی چاہیے ، جو کہ مکمل علمی نتائج و ملاحظات اور استنباط و حاصلات سے مُزّین ہو ، اور ان محصولات ِ علمیہ کو ایسی جدید شکل میں ترتیب و تشکیل دینا ،جو معلومات افزا، علم پرور اور عمدگی سے آراستہ ہو ۔ڈاکٹر میر آصف اکبر لائقِ مبارکباداور یونیورسٹی کے لیے ہدیہ ٔ سپاس و امتنان۔جامعہ ہجویریہ داتاؒ دربار کے مدارالمہام صاحبزادہ محمد بدر الزمان قادری،مفتی محمد رمضان سیالوی اوراہالیان، جامعہ ہجویریہ نے اسی تناظر و تشکر میں گزشتہ روز داتاؒ دربار کے ہجویری ہال میں ایک تقریب،جو کہ بنیادی طور پر حال ہی میں پی ایچ ڈ ی کی تکمیل کرنے والے الحاج سرورحسین نقشبندی اور میر آصف اکبر کے اعزاز میں تھی ،کا ڈول ڈال دیا اور اس کو زیادہ نفع بخش بنانے کے لیے’’تحقیقی روّیوں کی تشکیل میں محراب و منبر کا کردار‘‘ کے عنوان سے آراستہ کر کے تحسین و تبریک کے ساتھ تحقیق و تدوین کے راستے بھی سنوارنے کا اہتمام کردیا۔ کسی بھی علمی تحقیق کے لیے سب سے اہم امر، موضوع کا انتخاب ہے ۔جسکا محقق اور صاحبِ تحقیق کی منشأ،رغبت،میلان طبعی او رصلاحیتوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔موضوع کا انتخاب کٹھن اور مشکل مرحلہ ہے ۔ ریسرچر ابتدائی طور پر محسوس کرتا ہے کہ اچھے موضوعات کا توانتخاب ہو چکا ہے اور لوگ ان پر تحقیق کرچکے،اب تو محض گنجلک اور پیچیدہ موضوعات ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ حالانکہ محققین اور ماہرین، اس امر سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ کونسے مضامین ابھی تشنہ اور تحقیق طلب ہیں۔تحقیق کا سفر ایک محنت طلب اور صبر آزما مرحلہ ہے اور پھر پی ایچ ڈی سکالر کو چونکہ ایک خاص پر وسیس سے بھی گزرنا مقصود ہوتا ہے ، تاکہ مشقت ، تندہی اور صبر آزمائی ، اس کے مزاج کا حصہ بنے،بنابریں ایسی طلب اور کسک کا پیدا کیا جانا لازم ہے ۔ بعض اوقات موضوع کے انتخاب میں ذاتی تجربہ،معلومات اور مشاہدات بھی بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں ۔جیسے ڈاکٹر میر آصف اکبر قادری --- کہ جن کی اوقاف کے ساتھ ایک طویل موانست اور رفاقت اور الحاج ڈاکٹر سرورحسین نقشبندی، جن کا موضوع بحث و تحقیق’’اردو نعت نگاری میں معنوی اور اسلوبیاتی تشکیل نو‘‘ ان کی فطری اور فکر ی رغبت کے حامل ہیں ۔ ہر موضوع یقینا تحقیق کے قابل نہیں ہوتا،اچھے موضوعات کی بھی بڑی شرائط ہیں، یعنی اس پر پہلے کہیں کام نہ ہوا ہو، کبھی کہیں رجسٹرڈ نہ ہو اور نہ ہی تحقیق ہوئی ہو ۔ موضوع میں جدّت اور تخلیق(Innovation)،عنوانِ تحقیق اپنے لفظی اور معنوی ترکیب و مفہوم میں عمدہ اور جامع ہو ،زیر بحث آنے والا موضوع، لائقِ تحقیق بھی ہو اورمعنویت اور مقصد یت سے آراستہ بھی ۔ بنیادی ماخذ اور حقیقی مصادر میں اس موضوع کی مناسبت سے راہنمائی موجود ہو ۔ بعض اوقات موضوع کا پھیلائو ایک خاص حد سے تجاوز کرجاتا ہے ، جس کے سبب ریسرچ سکالر کے لیے تعلیمی و تحقیقی دورانیہ میں اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے ،’’ ٹائم لائن‘‘کو پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے ۔ تحقیق کے حوالے سے لازم ہے کہ ایسے ایریا کا انتخاب کیا جائے جس کو سماجی اور معاشرتی یا علمی و دینی سطح پر قبولیت میسر ہو ۔ ایسے موضوع کا انتخاب نہ کریں جس سے سوسائٹی افتراق و انتشار کا شکار ہو ۔ اسی طرح موضوع کی معرفت اور دلچسپی کو ضرور پیش نظر رکھا جانا چاہیے ۔ ادب اور لٹریچر کا طالبعلم سائنس اور جغرافیے جیسے موضوع میں آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ محقق کو تحقیق کے مقاصد و اہداف (Objectives) اور اس کی (Dimensions) اور طرق ومنہج (Methodologies) سے بھی اچھی واقفیت اور آگاہی ہونی چاہیے ۔ کمپیوٹر کی نیٹ ورکنگ نے تعلیم و تعلم اور بحث و تحقیق کرنے والوں کے لیے راستوں کو آسان ترین اور منزل کو قریب تر کردیا ہے۔ ہمارے اکابرین کسی ایک خبر یا امر کو انویسٹی گیٹ کرنے کے لیے کئی کئی ہفتے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے تھے ۔ ایک حظّے کی تحقیق سے دوسرے خطّے کے لوگ بے خبر ہوتے تھے ۔ کتاب عام طور پر دستیاب نہ ہوتی تھی ۔ آج ہزاروں علمی وتحقیقی مقالات و کتب اور قلمی نسخے انٹرنیٹ پر آپ کے ایک کلک(Click) کے فاصلے پر ہیں ۔ ان ساری سہولتوں کے ساتھ احتیاط کے تقاضے بھی بڑھ گئے ہیں ۔ بعض اوقا ت انٹرنیٹ پہ بہت سا موادجھوٹی روایات اور غلط معلومات سے بھی لبریز ہوتا ہے ۔ اسی طرح ، آج کل مرتد ، مستشرق اور لادین قوتیں، لائبریریوں میں ایسا دینی لٹریچر ارسال کررہی ہیں جو تحریف شدہ اور باطل نظریات پر مبنی ہے ۔ ایسے میں محققین کی ذمہ داری دو چند ہو گئی ہے ۔ معلومات کی صحت اور صداقت بنیادی شرط ہے ۔ جس کے لیے صبر و تحمل بہت بنیادی بات ہے ۔ ریسرچ سکالر کو اگر ایک قضیہ نپٹانے کے لیے دس مرتبہ بھی کتاب کھنگالنی پڑھتی ہے تو اکتاہٹ اور بیزاری کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔ ہمارے جواں سال محققین کم سے کم وقت میں ، جلد ازجلد ڈگری کے حصول کے خواہاں ہوتے اور اس عجلت میں صبرو تحمل اور وقار و احتیاط کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں ۔ محض اسائنمنٹ اور ڈگری کی بجائے ، تحقیق ، تخلیق ، پروفیکشن اور قابل قدر اضافے کی طرف بھی خیال رکھنا چاہیے ۔ جواں سال محققین کو جو امور بطور خاص پیش نظر رکھنے چاہئیں، ان میں تواضع اور انکسار بہت لازم ہے، نسل نو رسمی رکھ رکھائو سے عاری اور اس’’موبائیل ایج‘‘میں بُری طرح جکڑی ہوئی ہے ۔ اپنے سینئرز سے اپنی شرائط کے مطابق راہنمائی کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ اہم کتابوں میں ان اکابرینِ اُمّت کے واقعات پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ، لیکن ان سے خود کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اسی طرح ڈسپلن ، تنظیم و تربیت اور نظم ونسق کو ضرورپیش نظر رکھیں ۔مَیں نے مقالات اور بالخصوص ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کو ان کے آخری ایّام میں بدحواس ہوتے دیکھا ہے جس کے سبب اخذِ نتائج اور ترتیب و تسوید بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے ۔ ذہنی دبائو کے سبب تحقیقی اور تخلیقی قوت مغلوب ہو کر کام کرنا چھوڑدیتی ہے ۔ ضروری بات جو بطور خاص تحریر کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا جو بھی شعبہ تحقیق و تعلم ہے ، اس میں رسوخ پیدا کریں ۔ مطالعہ کو گہرا اور علم کو وسعت دینے کی شعوری کوشش کریں ، علمی اور تحقیقی امور کو "Rationalize" کریں۔ آپ کی اپنے سبجیکٹ میں ایک پہچان ہونی چاہیے ۔ اس کے ساتھ اپنی تحقیق کو سوسائٹی کے لیے نفع بخش اور فائدہ مند بنائیں ۔ تخریب ، فساد ، انتشار اور فرقہ واریت سے اجتناب کریں۔ اپنے طرزِ عمل کو طالبعلمانہ اور محققانہ رکھیں، اچھی بات قبول کرنے کا داعیہ اور جذبہ ہرآن موجود اور غیر ثقہ بات کو ردکرنے کی ہمت موجزن رہنی چاہیے ۔