تبدیلی دلفریب نعروں اور خوش کن ترانوں سے نہیں عزم صمیم اور کچھ کر گزرنے کے ولولہ سے بھی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے اختیار اور عہدے سے زیادہ لگن اور ہر ممکن حد تک بہتری کی کوشش کا جنوں ہونا چاہیے۔یہ سبق سکھایا گزشتہ روز صبح دس بجے ایک نوجوان کی دستک نے۔دروازے پر بیس پچیس برس کے نوجوان کا کہنا تھا کہ ہم ڈی جی فوڈ اتھارٹی کے حکم پر گھر گھر سے دودھ کے نمونے حاصل کر رہے ہیں تاکہ اس بات کاپتہ لگایا جائے کہ آپ کو ملاوٹ سے پاک خالص دودھ مل رہا ہے یانہیں۔فوڈ اتھارٹی کی یہ دستک باعث حیرت تھی! کہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھی ہر کام میں روڑے اٹکانے والی افسر شاہی میں کوئی ایسا بھی ہے جو عام پاکستانی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یہی تجسس ڈی جی فوڈ اتھارٹی کے دفتر کھینچ کر لے گیا۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی جہانگیر انور سے مل کر اندازہ ہوا کہ آپ کسی بھی محکمہ یا عہدے پر ہوں، اگر کام کرنا چاہیں تو مشکلات آپ کا راستہ نہیں روک سکتیں۔جہانگیر انور سے فوڈ اتھارٹی کے اہلکاروں کے گھر گھر دستک دینے کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک سے پانچ سال کے ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی کمی کا شکار ہے جبکہ تین سے دو سال میں یہ تناسب ہر تین میں دو ہے۔ پاکستان میں ہر ہزار میں سے 89بچے مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے تین سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ اب دو سال سے کم عمر بچے کی غذا دودھ ہی تو ہوتی ہے جو اس کو جعلی یا ملاوٹ شدہ ملتا ہے۔ بچے ہی کیوں پاکستان میں بڑی عمر کے کتنے لوگ ناقص غذا کی وجہ سے وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں درست اعداد و شمار میسر نہیں مگرامریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہر سال چھ لاکھ 78ہزار افراد معیاری اور مناسب خوراک نہ ملے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد کتنی ہو گی آپ خود اندازہ لگا لیں۔ پاکستان میںغریب کی بے بسی کا مجھے اندازہ ہی نہیں بلکہ میرے پاس درست اور قابل بھروسہ معلومات بھی ہیں۔ پاکستان اپنے جی ڈی بی کا محض 3 فیصد عوام کی صحت پر خرچ کر رہا ہے کیونکہ وسائل ہی نہیں۔ 2011ء میں ایک میٹنگ کا گواہ ہوں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو مستقبل میں صحت کے منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی جا رہی تھی کہ ہمیں کتنے ہسپتال درکار ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ نے حیرانگی سے پوچھا کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں بیمار کیوں ہو رہے ہیں؟ ان کو بتایا گیا پاکستان میں بیماریوں کی بڑی وجہ ناقص خوراک ہے۔ یہاں دودھ، خوردنی تیل اور مرچوں سے لے کر چائے کی پتی تک ہر چیز میںمضر صحت اشیاء کی ملاوٹکی جاتی ہے، لوگ تو بیمار ہونگے۔ شہباز شریف نے کہا تھا ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد اور صحت کا بجٹ بڑھانے کے بجائے لوگوں کو معیاری خوراک کی فراہمی پر کیوں نہ توجہ دی جائے؟ اسی میٹنگ میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا ۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی ویسے تو عوام تک متعد خالص اور معیاری غذائی اجناس پہنچانے کے لئے کوشاں ہے مگر میرا فوکس دودھ ،خوردنی تیل اور پانی پر ہے۔پنجاب کی آبادی 12کروڑ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے 60 فیصد لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کو کسی حد تک خالص دودھ میسر ہے۔ 5کروڑ جو شہروں میں مقیم ہیں ان کا سب سے بڑا مسئلہ دودھ ہے۔مجھے فوڈ اتھارٹی کا چارج سنبھالے ابھی تین ماہ نہیں ہوئے اس عرصے میں اتنی کوشش ضرور کی ہے کہ عوام کو خالص دودھ کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے ۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 2018-19ء میں پاکستان میں دودھ کی کل پیداوار 48ملین ٹن تھی اور ہر سال 5 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دودھ کی ڈیمانڈ 15فیصد بڑھ رہی ہے۔ طلب اور رسد میں اس فرق کی وجہ سے مصنوعی اجزا سے دودھ بنانے کے رجحان بڑھ رہا ہے۔فوڈ اتھارٹی مجھ سے پہلے بھی بھرپور انداز میں کام کر رہی تھی، روزانہ ہزاروں لیٹر دودھ نہ کسی علاقے میںتلف کیا جا رہا تھا مگر اس سے جعلی اور ملاوٹ شدہ دودھ کی سپلائی روکنا ممکن نہ تھا، اسی لئے صارفین کو دودھ مفت چیک کروانے کی سہولت فراہم کی گئی۔مجھے یہ اندازہ ہے کہ غریب کو تو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ مزدوری چھوڑ کر دودھ چیک کروانے نہیں آئے گا پھر دستک کا خیال آیا۔ہم گھر گھر جا کر دودھ کے نمونے ہی حاصل نہیں کر رہے بلکہ دستیاب افرادی اور مالی وسائل کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں دودھ کی چھوٹی بڑی 10ہزار دکانیں ہیں۔ ان میں سے ایک ہزار دودھ فروش ایسے ہیں جو 5ہزار لیٹر سے زیادہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔ فوڈ اتھارٹی اب ان سے معلومات حاصل کر رہی ہے ان کو کون دودھ کہاں سے سپلائی کر رہا ہے جو سپلائی کر رہا ہے اس کے پاس کتنے جانور ہیں۔ اس کے علاوہ فوڈ اتھارٹی ان ایک ہزار بڑے دودھ فروشوں کے لئے لازم کر رہی ہے کہ وہ اپنے سیل پوائنٹ پر دودھ چیک کرنے کا بندوبست کریں اور فروخت کئے جانے والے دودھ کو چیک کر کے فوڈ اتھارٹی کو روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا فراہم کریں اس کے علاوہ عام صارف بھی دودھ چیک کروا کر رزلٹ حاصل کر سکے گا۔ جہانگیرانور کو یقین ہے کہ پنجاب حکومت فوڈ اتھارٹی کے بجٹ میں 5 فیصد اضافہ کر کے صحت کے بجٹ کو 15فیصد کم کر سکتی ہے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور وزیر صحت ہسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں۔ بظاہر ان دوروںکا مقصدعوام کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب یہ ہدف فوڈ اتھارٹی کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔فوڈ اتھارٹی میں جہانگیر انور کی صورت میں متحرک اور درد دل رکھنے والے ڈی جی موجود ہیں ۔ممکن ہے پنجاب انتظامیہ نے اپنے تئیںکمشنر بہاولپور کے عہدے سے ہٹا کر کھڈے لائن لگایا ہو مگر وہ یہا ںکچھ کرنا چاہتے ہیں عوام کے لئے پاکستان کے مستقبل بچوں کے لئے ۔وزیر اعلیٰ ہسپتالوں اور پلوں کی بروقت تکمیل ساتھ لوگوں کی خوراک پر بھی توجہ دیں ۔ڈی جی فوڈ کو وسائل اور سرپرستی قانونی فراہم کرنے کے علاوہ ضروری قانون سازی کریں تو نہ صرف پنجاب کے عوام کو معیاری اور خالص خوراک میسر ہو گی بلکہ پنجاب حکومت کے صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں کمی بھی ممکن ہو گی۔ صحت مند فرد سے صحت مند سماج کی تشکیل ممکن ہے اور صحت خالص اور معیاری خوراک کے بغیر ممکن نہیں اس لئے فوڈ اتھارٹی پر توجہ دیں۔