1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے عنان اقتدار سنبھالی تو پہلی نشری تقریر میں قوم سے 90دن میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا اور کہا حکومت کی باگ ڈور منتخب نمائندوں کو سونپ کر اپنے ساتھیوں سمیت بیرکوں میں واپس چلے جائیں گے۔حفاظتی نظر بندی سے رہائی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو لاہور آئے تو ان کا شاندار استقبال ہوا اور ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ جنرل ضیاء الحق نے بھانپ لیا کہ اگر 90دن میں انتخابات ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو دوبارہ اقتدار میں واپس آ جائیں گے‘ بھٹو صاحب نے لاہور ہی میں اعلان کیا کہ وہ برسر اقتدار آ کر ضیاء الحق کی مونچھوں سے اپنی جوتوں کے تسمے بنائیں گے جبکہ واقفان حال بتاتے ہیں کہ مری کی ملاقات میں جہاں بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی ‘پی این اے کے رہنما نظر بند تھے‘ سابق وزیر اعظم نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو دھمکی دی کہ انہیں جب بھی موقع ملا وہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کو بروئے کار لائیں گے۔کمرہ ملاقات سے نکلنے کے بعد ضیاء الحق نے اپنے قریبی ساتھی اور شریک ملاقات جنرل فیض علی چشتی سے پوچھا ’’مرشد یہ آرٹیکل 6کیا ہے ؟ ‘‘ چشتی نے کہا راولپنڈی پہنچ کر جیگ(JAG) برانچ سے پوچھ لیتے ہیں۔ جناب عبدالولی خان حیدر آباد جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا جبکہ بھٹو کے دیگر سیاسی مخالفین جن میں نامور صحافی بھی شامل تھے فوجی آمر کو یہ مشورہ دینے لگے کہ احتساب کے بغیر انتخاب بھٹو مخالف سیاسی و فوجی قیادت کے لئے موت کا پھندا ہو گا چنانچہ ضیاء الحق نے ایک دو واقعات کو بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی کر دیے اور بھٹو کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جہاں سے اپریل 79ء میں ان کی لاش ہی برآمد ہوئی‘ بعدازاں ضیاء مخالف پیپلز پارٹی کے علاوہ بھٹو کے مخالف سیاسی اتحاد پی این اے میں شامل جماعتوں کے قائدین نے ضیاء الحق کی طرف سے 90دن میں انتخاب کرانے کے وعدے سے انحراف کو قومی جرم قرار دیا اور اگلے دو تین عشروں تک نوّے دن کی تقدیس اور ضیاء الحق کی وعدہ خلافی کا ڈھنڈورا پیٹاجاتا رہا۔ یہ یاد نہیں کہ آئین میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اپنی صوابدید کے مطابق اسمبلیاں توڑنے اور 90دن کے اندر (not Later then 90 days)انتخابات کرانے کی شق نمبر 224کب اور کس پس منظر میں داخل ہوئی؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ 1973ء کے مقدس دستور پاکستان میں 90دن کے اندر انتخاب کرانے کی اہمیت جنرل ضیاء الحق کے وعدے سے زیادہ معتبر اور قابل تقلید ہے مگر اس سال جنوری میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے اپنے قائد عمران خان کے مشورے یا حکم پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں تو ان دونوں نے آئین میں حاصل اختیارات کو استعمال کیا اور تحلیل کی سمری بھیجنے سے قبل ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا جو ہرگز ضروری نہ تھا۔اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کا قیام عمل میں آیا ‘نامزد وزیر اعلیٰ سے صوبائی گورنروں نے حلف لیا‘ کابینہ تشکیل پائی مگر پھر خاموشی چھا گئی۔نئے انتخابات اصولاً‘ قانوناً ‘ اخلاقاً اور آئینی طور پر اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہونے چاہئیں تھے مگر وفاقی سطح پر برسر اقتدار‘ حکمران اتحاد میں شامل ضیاء الحق کے پیرو کار اور مخالفین دونوںیعنی مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی ‘ اے این پی اور جمعیت علماء اسلام جنرل ضیاء الحق اور ان کے اتحادیوں کی طرح عمران خان کی مقبولیت اور متوقع انتخابی نتائج سے اس قدر گھبراتے کہ انہوں نے الیکشن کمشن اور دیگر تمام اداروں کو ساتھ ملا کر انتخابات کے التواء کی کوششیں شروع کر دیں‘ حیرت انگیز طور پر ضیاء الحق کا صاحبزادہ محمد اعجاز الحق نوے دن میں انتخابات کا حامی اور عمران خان کا ساتھی ہے جبکہ پی این اے کے صدر مفتی محمود کا صاحبزادہ مولانا فضل الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو ‘ داماد آصف علی زرداری‘ ولی خان کا پوتا ایمل ولی خان‘ اور ضیاء الحق کی عمر پا کر تین بار ملک کا وزیر اعظم بننے والا نواز شریف‘ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور برادر خورد میاں شہباز شریف الیکشن سے ایسے بھاگتے جیسے کوّاتیر کمان سے‘ الیکشن کا نام سن کر ان ان کو غشی کے دورے پڑتے ہیں‘لگتا یوں ہے کہ ان سب میں ضیاء الحق کی روح حلول کر گئی ہے جو 90دن میں انتخاب سے خائف اگلے کئی برس ‘ بغیر انتخاب اقتدار میں رہنے کی خواہش مند ہے۔ سیاستدانوں اور سول حکمرانوں کی اصل قوت و طاقت کا منبع آئین ہوتا ہے یا ملک کے عوام جو انتخابات کے ذریعے اپنی رائے ظاہراور کسی سیاستدان و سیاسی جماعت کو حکمرانی کا حق عطا کرتے ہیں‘ جنرل ضیاء الحق نے اپنے وعدے سے انحراف اس چھڑی کے بل بوتے پر کیا جو ٹکا خان نے اپنے جانشین کو پکڑائی تھی ‘ورنہ حلف اس نے بھی آئین کی وفاداری و پاسداری کا اُٹھایا تھا‘ موجودہ حکمران اتحاد ‘عوام کو اپنے حق رائے دہی سے محروم‘ آئین کی شق 224کو پامال اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف کر کے نہ صرف اپنے آپ کو جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں کی صف میں بخوشی شامل کر رہا ہے بلکہ اس شاخ کو بھی کاٹ رہا ہے جس پر سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) باجوہ نے انہیں لا بٹھایا لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ ان کے ہاتھ میں یا پشت پر بھی جادو کی چھڑی ہے‘ جس سے وہ جمہور‘ آئین اور عدالت عظمیٰ کو بآسانی ہانک سکتے ہیںسیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کایہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت اپنے سیاسی مفاد کی خاطر آئین کو پامال کرنے کا کارنامہ وہ تمام و مذہبی و سیاسی قائدین انجام دے رہے ہیں جو سلطانی جمہور کے سب سے بڑے علمبردار اور ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کے خوش نما نعرے کے موجد ہیں ۔’’ووٹ‘‘ کو عمران خان سمجھ کر حیران ‘پریشان بھاگنے والوں کی تفنن طبع کے لئے ہری چند اختر کے چند اشعار ؎ کہا ہم چین کو جائیں ‘ کہا تم چین کو جائو کہا جاپان کا ڈر ہے‘ کہا جاپان تو ہو گا کہا کابل چلے جائیں‘ کہا کابل چلے جائو کہا افغان کا ڈر ہے‘ کہا افغان تو ہو گا کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں‘ کہا تم اونٹ پر بیٹھو کہا کوہان کا ڈر ہے‘ کہا کوہان تو ہو گا ’’افغان‘‘ کی جگہ’’ عمران‘‘ یا ’’کپتان ‘‘پڑھیں تو زیادہ مزہ آئے گا۔ ماضی میں برسر اقتدار سیاستدانوں کے خلاف اپوزیشن جماعتیں اتحاد بناتی اور حکمرانوں کی طرف سے متوقع انتخابات میں دھاندلی کا شور مچاتی تھیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی‘ مذہبی‘ لسانی‘ نسلی اور علاقائی جماعتیں اقتدار میں آ کر یک جماعتی اپوزیشن تحریک انصاف اور عمران خان سے خوفزدہ ہیں اور ریاستی اداروں کی قوت و اختیار کو بروئے کار لا کر انتخابات سے فرار حاصل کر رہی ہیں‘ سوال مگر یہ ہے کہ چند ماہ کی لولی لنگڑی اور کمزور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کی خاطر آئین‘ سپریم کورٹ کے فیصلے اور جمہوری اُصولوں کو روند کر یہ جماعتیں اور ان کے لیڈر پاکستان میں جو نئی روایات قائم کر رہے ہیں ان کا فائدہ کل غیر جمہوری قوتیں اٹھائیں گی تو یہ کس مُنہ سے حرف اختلاف منہ پر لاپائیں گے۔’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘‘کا نعرہ لگانے والوں کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے التوا اور حکمران اتحاد کی تائید و حمائت پر سوچنا چاہیے کہ زندہ ضیاء الحق ہے یا کوئی اور؟جیت کس کی ہوئی ؟ضیاء الحق کی‘جس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’ آئین کیا ہے ؟چند کاغذوں کا پلندہ ‘جسے میں جب چاہوں ردی کی ٹوکری میں ڈال دوں اور ان سیاستدانوں کو میں جب بلائوں گا یہ دم ہلاتے ہوئے پہنچ جائیںگے۔’’موجودہ حکمران اتحاد نے کپتان کے ڈر سے ضیاء الحق کی دونوں باتوں کو اپنے عمل سے سوفیصد درست ثابت کر دیا اب پاکستانی عدلیہ‘ سول سوسائٹی‘ بچے کھچے دستور پسند سیاستدانوں اور سلطانی جمہور کے علمبردار صحافیوں کو آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت کرنا ثابت قدم رہناہے کہ وہ عوام اور آئین کے محافظ ادارے کے ساتھ کھڑے ہیں۔