مشرق وسطیٰ میں صلیبی جنگ میں نئی شدت آ چکی ہے ۔وہ لڑائی جو امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان میں شروع کی تھی اور جسے بعد میں عراق تک وسعت دے دی گئی ‘ اب امریکی گماشتے اسرائیل کے ذریعے وہ جنگ باقی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران پینتیس ہزاربے گناہ فلسطینی شہری اس جنگ کا لقمہ بن چکے ہیں‘ہزاروں زخمی ہیں‘شہر ‘قصبے اور دیہات ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے ۔اسرائیل کی اس ننگی جارحیت میں امریکہ بھی عریاں ہو کر سامنے آ گیا ہے ‘لیکن کسی کی مجال نہیں وہ قاتل کو قاتل اور مجرم کو مجرم کہہ سکے ۔یہ امریکہ ہی ہے جس کی ہلہ شیری پر اسرائیل غزہ کو کھنڈر بناتا جا رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حماس کی زبردست مزاحمت سے تنگ آ چکا ہے ‘وہ کسی باعزت پسپائی کے لیے تیار بھی ہے ‘لیکن امریکہ جنگ روکنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ۔بائڈن مسلمانوں کے لہو کا پیاسا ہے ‘ اس کی پیاس ابھی نہیں بجھی ۔ امریکا اور اس کے اتحادی یہ کہہ کر اپنے آپ کو ’’بری‘‘ کر چکے ہیں کہ’ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کوئی شواہد نظر نہیں آئے ‘سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو اس جارحیت پر الزام نہیں دیا جا سکتا ‘وہ تو ہمارے کھلے دشمن ہیں ‘انہیں یہی کرنا تھا جو وہ کر رہے ہیں ۔ہمیں اصل نقصان وہ امریکی غلام پہنچا رہے ہیں جو عالم اسلام کے اقتدار کے مالک بنے ہوئے ہیں ۔ہمارے یہ مخفی دشمن سب سے بڑھ کر خطرناک ہیں ۔عالم اسلام کے ستاون ممالک کے بے جان اور بے حمیت حکمران جن کے کانوں پر ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل سے جوں تک نہیں رینگی۔ عالم اسلام کے حکمرانوں کی یہ بے حسی اور بے حمیتی ایک شرم ناک سانحہ ہے ۔یہ پونے دو ارب مسلمانوں پر حکومت کرنے کے مدعی جن کے اندر قیادت کی کوئی بھی صلاحیت موجود نہیں ان کا وجود اسلام کے نام پر کسی داغ سے کم نہیں ۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو اپنے سیاسی فیصلے کرنے اور ترجیحات طے کرنے میں آزاد نہیں ‘ بلکہ امریکہ کے کاسہ لیس اور ادنیٰ غلام بنے ہوئے ہیں ۔وہ نہ صرف اسرائیل جیسی اسلام دشمن قوتوں کی جارحیت پر خاموش اور منقار زیر پر رہتے ہیں ‘ بلکہ جب مغرب کی طرف سے اشارہ ہوتا ہے تو اس کی خوشنودی پر اپنے قومی مفادات کو قربان کر نے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ کس قدر الم ناک بات ہے کہ امریکہ نے عالم اسلام کے سینے میں اسرائیل جیسا زہر میں بجھا خنجر اتار رکھا ہے اورعالم اسلام کے ہوائی اڈے امریکی جہازوں کے استعمال میں ہیں ۔ان کی خفیہ ایجنسیاں امریکہ کی خدمت انجام دیتی ہیں ۔یہاں تک کہ ان کی افواج امریکی لڑائی لڑتی ہیں ۔یہ نام نہاد مسلمان افغانستان ‘ عراق ‘ فلسطین ‘ لبنان ‘ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کو ذبح کرنے والوں کے حامی و مدد گار بنے ہوئے ہیں ۔خدا سے بے خوفی اور امریکہ کے خوف نے ان کا یہ حال کر ڈالا ہے کہ اپنے سامنے سر زمین اسلام پر کفر کا حملہ ہوتے دیکھ کر ان کی غیرت بیدار نہیں ہوتی۔عالمی طاغوت کا غنڈہ اور کرائے کا قاتل اسرائیل تن تنہا غزہ پر آتش و آہن کی بارش کررہا ہے ‘لیکن یہ ستاون ممالک مل کر بھی اسے چیلنج کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ آفرین ہو غزہ کے جی داروں کو جنہوں نے ڈٹ کر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے ۔ اس پر ان کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے ۔اسرائیل اور امریکہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ غزہ کے مٹھی بھر سرفروش اور قوت کے لحاظ سے کمزور تنظیمیں اس طرح اسرائیل کا چیلنج قبول کریں گی ۔غزہ کے بہادر شہری جس طرح اپنی ہتھیلیوں پر سر سجا کر میدان میں اترے ہیں ‘ان کی جرات و شجاعت پر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے تھی،جو نہیں آئی ۔آج کوئی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ‘اپنے بھی خفا اور بے گانے بھی ناخوش ‘مگر وہ پیچھے ہٹنے کے لیے وہ تیار نہیں ۔یہ جن کی بے حسی کا کفارہ ادا کر رہے ہیں‘ وہ ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ‘ مگر وہ حیات باشرف کی خاطر پورے قد سے کھڑے ہیں ۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت ان کی تمنا ہے ۔ اپنے اور پرائے انہیں نصیحت کر رہے تھے کہ اسرائیل ‘ امریکہ اور یورپ کے ساتھ لڑنا آسان نہیں ‘ اس لیے ہتھیار ڈال دیں ۔لیکن انہوں نے صہیونیوں اور ان کے سرپرستوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا …’’ہم کبھی یہودیوں کے سامنے نہیں جھکیں گے ۔اگر ہمارے دشمن کے سامنے کوئی حد باقی نہیں رہی ‘تو ہم بھی کسی حد پر نہیں رکیں گے ۔ہمارے سارے اسرار حیرت زدہ کرنے والے ہیں ۔ہماری قوت کا راز رازداری میں ہے اور دشمن ہماری اصل طاقت سے بے خبر ہے ۔‘‘ غزہ والوںنے دنیا کو حیران کر دیا ہے لیکن ہماری بزدلی ہمیں مجبور کرتی ہے اور یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری سمجھتے ہیں کہ ’ حماس نے اتنے لوگ اپنی بے وقوفی سے مروا دیے‘ یہ کوئی نہیں کہتا کہ اسرائیل جیسی ناجائز ریاست نے فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔اگر غزہ سے اس بار بھی اسرائیل کو چیلنج نہ کیا جاتا تو ہمارے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے لائن میں لگے ہوئے تھے ۔ او آئی سی اور عرب لیگ جیسے ادارے اس موقعے پر راکھ کے ڈھیر سے زیادہ بے حقیقت ثابت ہوئے ۔وہ بات کرنے سے پہلے طاغوت کے امام امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں ‘وہاں سے اجازت نہ ملے تو زبان نہیں کھولتے ۔وہ باطل کے بندے بن گئے ہیں ۔باطل کبھی کسی کوعزت و شرف سے زندگی گزارنے کی مہلت نہیں دیتا ‘عزت کی زندگی اﷲ کی توفیق اور جرات و مردانگی سے حاصل ہوتی ہے ۔مگر جن کم نصیبوں نے اپنی خوشی سے ذلت و مسکنت سے جینا پسند کر لیا ہے ‘انہیں عزت کی زندگی کیسے نصیب ہو؟ان مسلمان حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں موت کا ڈر اور زندگی سے محبت ہے ‘اس لیے جیتے ہیں نہ مرتے ہیں ۔ امریکہ کی طرف سے ان کو صرف اس بات کی اجازت ملی ہے کہ وہ اپنے خنجر اپنے ہی سینوں میں اتار لیں ۔ایران،پاکستان ‘ مصر ‘ ترکی ‘سعودی عرب اور دوسرے بڑے بڑے ممالک کی افواج مل جائیں تو اسرائیل کی کیا مجال تھی کہ وہ غزہ کی طرف میلی نظر اٹھا کر دیکھ سکے۔لیکن یہاں بے چاری فوجیں کیا کریں کہ ان کے کمانڈر اور سالار ہی جرات و شجاعت سے محروم ہیں ۔اسلام کی سر بلندی کی خاطر جنگ لڑتے ہوئے ہماری سپاہ ساری دنیا سے اپنی بہادری کا لوہا منواچکی ہے ۔لیکن جب سے ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی چاکری شروع کی ہے ‘ہماری عسکری قوت اسلام دشمنوں کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے ان کے مفادات پر نچھاور ہو رہی ہے ۔ہمارے فوجیں صومالیہ ‘ سربیا اور کمبوڈیا میں جا کر تو لڑ سکتے ہیں ‘لیکن انہیں فلسطین اورکشمیر میں جا کر لڑنے کی اجازت کیوں نہیں؟۔۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور اس خطے میں امن کی حقیر سی کوششیں انسانوں کو تباہی سے بچا نہیں سکیں گی۔طاقت کے مقابلے میں مسلمانوں کم از کم اتنا تو کہہ دینا چاہیے تھا کہ اگر اسرائیل کو اسلحہ دینابند نہ کیا گیا تومسلم ممالک القدس کے لیے اسلحہ فراہم کریں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!!