نومبر 2019کی بات ہے ،اسلام آباد کی شہ رگ کشمیر ہائی وے ٹریفک کے لئے بند تھی مولانا فضل الرحمٰن کے عقیدت مندوں نے ڈیرے ڈالررکھے تھے ،گھنے درختوں کے نیچے جمعیت علمائے اسلام کے سادہ مزاج باشرع کارکنوں کا ٹھکانہ تھا۔ملک بھر سے جمعیت کے کارکن اپنے قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے یہاں آئے تھے اسی شاہرا ہ پر ایک پیدل برج کو اسٹیج بنا لیا گیا تھا ۔مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے قائد اس اسٹیج سے حکومت ِوقت کو للکارتے ، خطابت کے جوہر دکھاتے، کارکنوں کا لہو گرماتے ،نوید سناتے کہ بس یہ رہی منزل ۔۔یہ مکمل طور پر جے یوآئی کا پاور شو تھا لیکن مولانا اسے اپوزیشن کا دھرنا قرار دیتے تھے اس میں اُس وقت کی اپوزیشن کا بس اتنا ہی حصہ تھا کہ اسکی قیادت بڑی بڑی گاڑیوں میں مخصوص راستے سے آتی دھواں دھار تقاریر کرتی اور مولانا کی قیادت میں ایک ہونے ایک رہنے کی یقین دہانی کرواکر چلتی بنتیں۔ یہ سلسلہ چودہ روز جاری رہا جس کے بعد مولانا نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا بعد میں اس اعلان کی وجہ جلد الیکشن کرانے کی یقین دہانی بلکہ وعدہ بتایا گیا جو ایفا نہ ہوسکا، اس وقت پاکستان تحریک انصاف کا فسوں زوروں پر تھا الیکشن میں’’آر ٹی ایس ‘‘ بیٹھنے کے بعد آنے والے نتائج نے انہیں پورے قد سے کھڑا کردیا تھا ،اس میںشک نہیں کہ عمران خان اس وقت کے مشہور ترین لیڈروں میں سے تھے لیکن خدا لگتی کہوں کہ وہ اب ایسا بھی نہ تھا کہ بلے کے نشان پر جو میدان میں آئے مخالف کو دھول چٹا دے کراچی میں تو ایسا بھی ہوا کہ بعض ’’بلے والوں ‘‘ کو نصف شب گھروں کی گھنٹیاں بجا بجا کر نیند سے جگا کر بتایا گیا کہ مبارک ہو آپ جیت گئے ہو۔ مولانا فضل الرحمٰن انتخابی نتائج کے خلاف میدان میں آئے تو ان کے ہاتھ پر وہ وہ لوگ بھی بیعت کرتے دکھائی دیئے کہ جومولانا پر پھبتیاں کستے نہ تھکتے تھے ،ان دنوں کی تصاویر دیکھ لیجئے ایک طرف عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار والی صاحب دکھائی دیں گے تو دوسری طرف بلوچستان کے پشتون قوم پرست محمود خان اچکزئی صاحب اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ موجود نظر آئیں گے۔ ان کے جے یوا آئی اور مولانا کے لئے کیا خیالات تھے میڈیا گواہ ہے لیکن اس وقت ’’مقصد‘‘ ایک تھا تو سب اختلافات پس پشت ڈال کر ایک ہوگئے۔ عجب اتفاق کہ ایسا ہی ایک اتحاد آج دوبارہ وجود میں آچکا ہے جس میںوہ پی ٹی آئی بھی شامل ہے جو 2019کے اپوزیشن اتحاد کا ہدف تھی اور آج ا س کا ہدف ان پارٹیوںکے اشتراک سے بنائی گئی حکومت ہے۔ تحریک تحفظ آئین یا ٹی ٹی آئی کے نام سے بنائے گئے اتحاد کے صدر بلوچستان کے پشتون قوم پرست محمود خان اچکزئی صاحب ہیں اور دیگر جماعتوں میں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی،بلوچستان نیشنل پارٹی،سنی تحریک، مجلس وحدت مسلمین ،پی ٹی آئی بھی شامل ہیں جماعت اسلامی کو بھی اتحاد میں شامل کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں اور پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمٰن کی بھی جوتیاں بھی سیدھی کررہی ہے کہ وہ اس اتحاد کے سر پر دست شفقت رکھ دیں تاکہ حکومت کو چلتا کیا جاسکے اس اتحاد کا بلوچستان میں افتتاحی جلسہ بھی ہوچکا ہے ۔ مختلف نظریات ، فکر،سوچ اور اہداف رکھنے والا یہ اتحاد کیا رنگ لائے گا ،حکومت کو کتنا پریشان کرسکے گا اس کاانحصارجے یوآئی اور جماعت اسلامی کی شمولیت پر ہے۔ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی صاحب کی جماعت بلوچستان کے مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہے ،سنی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین بھی دو مکاتب فکر کی چھوٹی سی جماعتیں ہیں جن سے چند ایک شہروں میں جلسوں کو کامیاب بنانے میں معاونت سے زیادہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی، البتہ اس اتحاد میں جماعت اسلامی ، جے یوآئی کی شمولیت سے حکومت کی پیشانی پر بل پڑسکتے ہیں پی ٹی آئی ایک بڑا ووٹ بنک رکھنے کے باوجود اس وقت قیادت کے بحران کی وجہ سے دائروں میں سفر کر رہی ہے وہ وکلاء جنہیں قیادت سونپی گئی وہ خان صاحب کے مقدمات کی ڈھنگ سے پیروی کر رہے ہیں نہ پارٹی کو متحرک کرپارہے ہیں آپس کے اختلافات آئے دن گل کھلا رہے ہیں اور یہ صورتحال مزید بگڑتی جارہی ہے ایسے میں پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت سے بھرپور مزاحمتی تحریک کی توقع نہیں رکھی جاسکتی لیکن اگر جے یو آئی او ر جماعت اسلامی ساتھ دے دیں تو مسئلہ بن سکتا ہے ۔ حکومت کے لئے اپوزیشن مسائل شوق سے کھڑے کرے ،بس خیال رہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ حکومت معاشی ابتری اور قرضوں کا پہاڑ وہ آئس برگ ہے جو پاکستان کے لئے خطرہ بنتا جارہا ہے ،بارہا لکھ چکا ہوں اور میں ہی کیاسیاسی مدو جزر اور ملکی صورتحال پر نظر رکھنے والا تقریبا ہر دوسرا شخص یہی کہہ رہاہے کہ ہم پر چڑھے اربوں ڈالر کے قرضے ہمارے دشمن سے بڑے دشمن ہیں اس کا فوری حل سرمایہ کاری اور خود انحصاری ہے اب ایک ایسے ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا جہاں کی سیاسی جماعتیں ہی سرمایہ کاروں کو آنکھیں دکھارہی ہوں ۔یہی اپریل کا مہینہ تھا جب2014میں پی ٹی آئی کی اسی احتجاجی سیاست نے پاکستان کے دو روزہ دورے پر آنے والے چینی صدر کو اپنا دورہ منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا تھاچینی صدر اسلام آبادکے بجائے نئی دہلی چلے گئے تھے خدا خیر کرے آج پھر سعودی عرب کا ایک اعلی سطح کا وفد پاکستان میں موجود ہے لگ بھگ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے جبکہ سعودی عرب کا مجموعی طور پر اکیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا پلان ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مئی میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان پاکستان کے دورے پراس کااعلان کیا جائے گا یہ بڑی ڈیویلپمنٹ ہے جس کے لئے سیاسی قیادت سے زیادہ عسکری قیادت نے محنت کی ہے لازم رہے کہ اپوزیشن اس محنت پر ہی دھینگا مشتی شرو ع نہ کردے احتجاج ضرور کریں لیکن قومی مفاد پیش نظر رہے۔