لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور دھمکی آمیز خط کے معاملہ پر 92نیوز کی 2حصوں پر مشتمل خصوصی ٹرانسمیشن ہوئی جس کے پہلے حصے کی میزبانی اسداللہ خان ،فیصل عباسی،یاسر رشید جبکہ دوسرے حصہ کی میزبانی ڈاکٹر معید پیرزادہ نے سرانجام دیں۔پہلے حصہ میں تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعجاز چودھری نے کہاکہ ساڑھے تین سال میں جتنے چیلنجز پاکستان کو رہے ہیں وہ کبھی نہیں رہے ۔ہماری پارٹی میں کوئی لوٹے نہیں ، وہ آزاد حیثیت میں جیت کرآئے تھے ۔ تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید نے کہا کہ مصروفیات کی وجہ سے وزیراعظم کا خطاب مؤخر ہوا لیکن ایک بات واضح ہے کہ عمران خان جیت چکے ہیں اورجیت کردکھائیں گے ۔تحریک انصاف کی رہنما کنول شوزب نے کہاکہ آصف زرداری تو بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ معاہدے کون سے حدیث قرآن ہوتے ہیں۔ اصل گیم توووٹنگ کے روز ہوگی اجلاس جہاں مرضی بلالیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ن لیگ کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے کہاکہ خط سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ملک کو نقصان ہورہاہے یہ بھی نہیں بتارہے کہ کس ملک نے لکھا ہے ۔پیپلزپارٹی کے رہنما عبدالقادر مندو خیل نے کہاکہ دنیاکا کون سا جاہل ہوگا جو 2022میں خط لکھ کردھمکی دے گا۔گروپ ایڈیٹر 92نیوز ارشاد احمد عارف نے کہاکہ یہ چیزتو واضح ہے کہ کوئی سیاسی مجبوری نہیں ہوتی بلکہ سیاسی رہنما مفادات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں،اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے اب انہیں نتائج کا انتظارکرنا چاہئے ان کی طرف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ قبل از وقت ہے ۔بھٹو نے جو خط لہرایا ،وہ بھی درست تھا لیکن بھٹو کے بعد کسی بھی وزیراعظم نے جواب دینے کی جرأت نہیں کی۔ حکومت کو پرویز الٰہی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی خبر نہیں جاری کرنی چاہئے تھی۔ تجزیہ کار ڈاکٹر معید پیرزادہ نے کہاکہ یہ خط نہیں ایک ڈسپیچ ہے جس کے بارے میں یہی ہدایت ہے کہ دکھایا نہیں جاسکتا ،اس کو کابینہ کے ارکان کودکھایا گیا ہے ۔دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ ا گر حکومت چلی جاتی ہے تو آنے والوں کیلئے تو سہولت ہی سہولت ہے ۔ وزیراعظم کی خط کے حوالے سے حکمت عملی غلط تھی۔ سینئرتجزیہ کار ظفر ہلالی نے کہاکہ وزیراعظم کو تو خط کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا اگر انہیں پتہ تھا تو 7مارچ کو انہوں نے ایمرجنسی کیوں نہیں لگائی۔تجزیہ کار رانا عظیم نے کہاکہ اگر عمران خان کے ساتھ ساڑھے تین سال گزارنے والے لوگ جاسکتے ہیں تووہ واپس بھی آسکتے ہیں ۔تجزیہ کار سلما ن عابد نے کہاکہ دیکھناہوگا کہ اپوزیشن کے ساتھ کتنے لوگ جاتے ہیں گیم بدل بھی سکتی ہے ۔تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہاکہ جو عمران خان کے ساتھ ہوا ،اس کا بڑا دکھ ہے ۔خصوصی ٹرانسمیشن کے دوسرے حصے میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہاکہ ہماری سکیورٹی پارلیسی کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم اب جنگوں کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ تحریک انصاف کے رہنما عون عباس بپی نے کہاکہ اگرشہبازشریف یا بلاول بھٹو کو یہ خط دکھا دیا جا تا ہے تو کیا وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے ۔ن لیگ کے رہنما سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے کہاکہ پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی پرتمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں اگر کسی نے دھمکی دی ہے تو اس معاملے پر حکومت کو سپورٹ کرینگے ۔ماہرقانون بیر سٹر احمد پنسوتا نے کہاکہ ایک چیزہونے سے پہلے عدالت مداخلت نہیں کرسکتی عدالت نے روکا نہیں ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ وزیراعظم اپنے حلف کی پاسداری کریں۔ ن لیگ کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے کہاکہ شہبازشریف نے واضح طورپر کہا ہے کہ اگرکوئی ملک ہمارے ملک کو دھمکی دے گا توہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہونگے ۔گروپ ایڈیٹر 92نیوز ارشاد احمد عارف نے کہاکہ اس خط سے چند دن پہلے یورپی یونین کے سفیروں نے خط لکھا اورپریس کو جاری کردیا یہ بھی پہلے نہیں ہوا تھا۔حکومت کو چاہئے تھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس پہلے بلا لیتی لیکن بنیادی چیزیہ ہے کہ اگر دھمکی دی گئی ہے تو ہمارا بطور قوم کیا ردعمل ہوناچاہئے ۔