سکندر مرزا، ایوب خان، یحیٰ خان ،ذوالفقار علی بھٹو، فضل الہی چوہدری ،ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، محمد رفیق تارڑ، پرویز مشرف ،آصف علی زرداری ،مامون حسین اورعارف علوی یہ تمام احباب پاکستان کے اہم ترین صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ لیاقت علی خان، خواجہ نظام الدین، محمد علی بوگرا، چوہری محمد علی، حسین شہید سہروردی ،ابراہیم اسماعیل چندی گڑی، ملک فیروز خان نون، نور الامین، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف، ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف، شاہدخاقان عباسی، عمران خان نیازی، شہباز شریف یہ تمام بھی اہم ترین عہدیپر فائز یعنی وزیراعظم پاکستان رہے ہیں بلکہ کچھ تو تین مرتبہ بھی بن چکے ہیں۔ یہ سب نام لکھنے کا مقصد قوم کو باور کروانا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کے حالات کے یہ سب ذمہ دار ہیں کہ نہیں؟ یا صرف قوم ہی ذمہ دار ہے جو آج 24 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ آج اگر پاکستان کے موجودہ حالات دیکھیں اور ایمانداری اور غیرجانبداری سے تجزیہ کریں تو ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ کیونکہ یہ عالمی سازشوں کے بھی شکار ہوئے اور پھر بعد ازاں اپنی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برا نہ ہو سکے۔ 76 سال میں اگر ہم دیکھیں تو لیڈرشپ اس ملک کے مسائل کا حل ہی نہیں کر سکی۔ ایسا نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی لیڈر نہیںتھا ان میں سے بعض تو عوام میں مقبول ترین بھی رہے ہیں۔ عوام نے ان کو اس عہدے تک اس امید اور یقین سے پہنچایا کہ ان کے حالات بھی بدلیں گے اور پاکستانیوں کو دنیا کی ترقی یافتہ قوم بھی بنائیں گے۔ معاشی حالات نے قوم کو اس حالت پر پہنچا دیا ہے کہ وہ ان کے نام تک بھی بھول چکے ہیں ہر کسی نے اپنی سوچ کے مطابق اس ملک کو چلانے کی کوشش کی بہت تلخ ترین تاریخ ہے ان کی اور پھر عجیب و غریب انجام سے بھی دوچار ہوئے، جو ہنوز راز ہے۔ شاید اس خطے کی بدقسمتی ہے کہ ہزاروں سال سے عوام یہی سمجھتی ہے کہ ان کے حالات لیڈرز ہی بدلیں گے بلاشبہ دنیا کے حالات لیڈروں نے بدلے ہیں۔ ہم سے بھی بدترین حالات رکھنے والے خطے بھی ترقی کر گئے۔ اس ملک کو ایک کامیاب فلاحی ریاست بننا ہی قائد اعظم کا مقصد تھا۔ مگر یہ ملک حضرت قائد اعظم نے ہمیں اپنی ذہانت محنت اور مذاکرات کے ذریعے لے کر دیا ۔کسی بہت بڑی جنگ کے ذریعے ہم نے اسے حاصل نہیں کیا اور ہجرت کے دکھ ہم نے برداشت کیے۔ ہم بہکے کہاں؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے معذرت کے ساتھ ہر کسی نے وعدے کیے اور پھر اپنا رونا بیان کر کے ہمدردیاں حاصل کی ہیں۔ آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے سن دو ہزار کے بعد دنیا بہت بدل چکی ہے اور کافی حد تک طے کر چکی ہے کہ اب بارڈرز تبدیل نہیں ہوں گے بلکہ ان کی اہمیت ختم کی جائے گی۔ یورپ میں ایک سے دوسرا ملک آجاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا انشاء اللہ تعالی قیامت تک پاکستان کا نقشہ یہی رہے گا جو لوگ بھی کسی بھی آزادانہ سوچ کے حامل ہیں وہ سمجھ لیں اب دنیا کا نقشہ تبدیل نہیں ہوگا جو جہاں ہے جیسا ہے ویسا ہی رہے گا۔ دنیا نے یہ بھی طے کر لیا ہے کہ اب آزادانہ تجارت ہوگی ہر کوئی اپنی ضرورت اپنے ہی ملک میں پیدا کر کے پوری کرنے کا راستہ اپنا چکا ہے جو وافر ہوگی وہ باہر بیچ دی جائے گی اور جو قلیل ہوگی وہ منگوائی جائے گی۔ معیشت کے آگے تمام نظریات شناختیں ڈھیر ہو چکی ہیں۔ ہمیں خوابوں کی دنیا سے باہر آنا ہوگا کوئی معجزہ نہیں ہونے جا رہا۔ سب سے بدترین حالات ہمارے اداروں کے ہیں اور دوسرا ہمارا رہائشی نظام پوری دنیا میں سب سے آلودہ فضا ہماری ہے۔ درجہ اول کے سرکاری ملازم سے لے کر صدر پاکستان تک ہمیں بدلنا ہوگا۔ معاشی بدحالی نے ہر کسی کو کرپشن پر لگا دیا ہے اور احتساب کا عمل بھی بیکار ہو چکا ہے سزا کا خوف تک ختم کردیا گیا ہے نہ کوئی گناہ سے ڈرتا ہے اور نہ جرم سے۔ ایک آتا ہے کچھ دیر نکالتا ہے پھر نکال دیا جاتا ہے پھر وہ نکالنے کا رونا روتا ہے اور پھر آ جاتا ہے۔ قوم پھر الیکشن کی طرف جا رہی ہے بلند و بانگ دعووں وعدوں اور کیچڑ اچھالنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ نئی حکومت آئے گی تبادلوں کا ریلا آئے گا۔ من پسند تقرریاں ہوں گی۔ من پسند علاقوں میں کچھ ترقیاتی کام ہونگے اور پھر اچانک سپیڈ بریکر آ جائے گا اوپر جو نام ہیں ان میں دو چار نام اور آ جائیں گے۔ 24 کروڑ اس عرصے میں ٹی وی اور موبائل کے ساتھ پاپ کارن کھائیں گے کیا کہیں کوئی سوچ رہا ہے کہ اب بس ہوچکی ہے۔ تمام آپشن حربے استعمال ہوچکے ہیں اب ایسا کیا کیا جائے کہ یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر چل پڑے ۔آج لوگ اس لیے مررہے ہیں کہ انکے پاس دوائی کے لیے پیسے نہیں۔ آج بچوں اور نوجوانوں کے لاغر جسم اس لیے ہیں کہ روٹی تک میسر نہیں۔خوراک تو بڑی دور کی بات ہے بھائی چارہ مہمان نوازی ناپید ہوچکی ہے۔ لوگ گھروں میں سویٹ ڈش پکانے سے گئے کب حالات بدلیں گے۔ شہرخموشاں میں حسرتیں ہی دفن کرکے آتے ہیں۔ طلاقوں کی بھرمار کیوں ہوگئی کاش کوئی انہیں دکھائے ان مائوں کے کلیجے جن سے ڈگری یافتہ بیروزگار دیکھے نہیں جاتے۔ گھر کی غربت نہیں دیکھی جاتی ۔کیا یہ قسمت کا لکھا ہے؟ اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے؟ غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے؟ کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے