آج کل میرے وطن میں چاروں جانب دھواں دار فضا ہے، دُھند کے اندھا دُھند ڈیرے ہیں۔ یہ دُھند زمینی بھی ہے، آسمانی بھی، ذہنی بھی ہے نفسیاتی بھی، حقیقی بھی ہے جذباتی بھی۔ فضائی بھی ہے، پھیلائی بھی ہے۔ جو فضائی ہے وہ سڑکوں پہ اثر انداز ہو رہی ہے اور جو پھیلائی ہے، وہ لڑکوں پہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ مختصر عرصے میں میرے ملک کے نو لاکھ سے زیادہ پڑھے لکھے، با ہنر، کچھ کر گزرنے کے فن سے آشنا نوجوان بے روزگاری، بے عملی، بے تدبیری، بے توقیری اور مستقبل کے اُفق پہ چھائی قیامت آثار دُھند کی بنا پر ملک چھوڑ کے جا چکے ہیں اور بقول شاعر: بہت آگے گئے ، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں یہ دُھند کچھ میڈیا کی پھیلائی ہوئی ہے، کچھ بد انتظامی کی۔ اس دُھند میں کہیں انصاف غائب ہو جا تا ہے اور کہیں جمہوریت۔ کہیں آٹا نظر نہیں آتا اور کہیں فاٹا… کبھی الیکشن سوالیہ نشان بن جاتے ہیں اور کبھی خلا سے مسلط کیے گئے ہیئت الخلائی فیصلے۔ استادِ محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا فرماتے ہیں کہ مَیں نے آٹھ دہائیوں سے زیادہ زندگی گزار لی ہے، آج تک ایسے الیکشن دیکھے، نہ سنے!… اوپر سے اس ’کثیرالمفاسد‘ دُھند میں حدِ نگاہ اتنی کم ہے کہ معیشت، مستقبل اور موٹروے کی ٹریفک جام ہوئی پڑی ہے۔ موٹر وے کی ٹریفک پھر بھی کسی نہ کسی وقت کھل جاتی ہے، معیشت اور مستقبل کی ٹریفک تو اتنی ٹیریفک (Terrific) ہوئی پڑی ہے کہ اپنے پاؤں پہ چلنا تو درکنار، بیرونی کاسہ لیسی (دے جا سخیا)کے بغیر کھسکنے اور رِشکنے کے امکانات بھی معدوم ہوئے جاتے ہیں۔ موجودہ کارپردازان کی ایک ایک حرکت سے سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں کی عقل ماؤف ہوئی جاتی ہے۔ قومی ترانے کے شاعر نے مستقل قومی حالات کی بابت کہا تھا: نظر آتی ہی نہیں صورتِ حالات کوئی اب یہی صورتِ حالات نظر آتی ہے چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہیں زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب! کہ مجھے ہر بری بات بری بات نظر آتی ہے سات اکتوبر کے بعد غزہ کے موسم نے عالمی طاقتوں کی انسانی قدر و منزلت اور حقوق سے متعلق پھیلائی دُھند کو کافی حد تک صاف کر دیا ہے، جس سے یہ منظر نہایت واضح ہو گیا ہے کہ مطلب اور منافقت کی فضا میںحقوق صرف طاقت اور دھونس کے ہوتے ہیں۔ مفادات کے میدان میں جرمِ ضعیفی ہمیشہ مرگِ مفاجات کا سزا وار ٹھہرتا ہے۔ اب تک جاری اس عبرت ناک اور ناقابلِ بیان سانحے سے برسوں کی پھیلائی ہوئی یہ دُھند بھی پوری طرح چھَٹ گئی کہ اس دھرتی کے تمام مسلمان اُمتِ واحدہ ہیں۔ آج کی اخوت یہ ہے کہ کابل میں چبھنے والا کانٹا ، کابل والوں کا مسئلہ اور فلسطین میں بہنے والا خون اُدھر کا معاملہ ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میںہمارا ایک دوست کہا کرتا تھا:’ہمہ یاراں دوزخ‘ والا محاورہ پرانا ہو گیا ہے، اب کچھ یاراں جنت، کچھ یاراں دوزخ کا رواج ہونا چاہیے۔ یہ وہی دوست ہے، جس کی کسی حرکت پر کہا گیا کہ یار، بدتمیزی کی کوئی حد ہوتی ہے! جھٹ کہنے لگا: تم بکواس کرتے ہو، حد صرف تمیز، اصول، اخلاقیات اور غیرت کی ہوتی ہے، بدتمیزی، بے اصولی، بد اخلاقی اور بے غیرتی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وطنِ عزیز کے موجودہ حالات دیکھ کے تو اس کی فضولیات، اقوالِ زریں لگنے لگی ہے۔ہمارے ملک میںتو لالہ بسمل کے بقول، اس طرح کا ’جمہوری‘ نظام کب سے رائج ہے : اِک دا جُتا سب دے اُتے، اِکناں دے کول جُتی کوئی نہ اِکناں کول نیں محل منارے، اِک کل رات توں سُتی کوئی نہ پھر ہماری سیاست، عدالت،صداقت، امانت، تجارت کے شعبوں میں پھیلائی ہوئی دھند کیا کم تھی کہ آج کل بارڈرز پہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب ذمہ داران کے رنگ برنگے بیانات کی دُھند میں لپٹا پڑا ہے۔ پہلے انڈیا اور افغان بارڈر پہ دُھند تھی اب ایرانی بارڈر بھی اندھا دُھند ہے۔ جو عالمِ اسلام چند سال قبل اتحاد کی جانب بڑھ رہا تھا، اس میں جگہ جگہ مورچے کھل گئے ہیں۔ راحت اندوری جو برِ صغیر کی سیاست کے پرانے بھیدی تھے، نے چروکنا کہہ رکھا ہے: سرحدوں پہ بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا؟ وطنِ عزیز کی ایک ایک بات، حرکت، پالیسی، فیصلے، منصوبے اور ضابطے میں ابہام، اسقام، ادغام، الزام دیکھ کے حکیم جی نے کہا تھا: دُھند میں لپٹے لوگ ہیں ہم اس دَھرتی کا روگ ہیں ہم سچ پوچھیں اب تو ہمارے حواس پہ عرصے سے چھائے اس شعر میں بھی شاعر کے عشق اور وارفتگی سے زیادہ دُھند اور آلودگی ہی کا عمل دخل نظر آتا ہے: لب ہی لب ہیں کہیں اور کہیں چشم ہی چشم نقش تیرے ، تیری صورت نہیں بننے دیتے چند سال پہلے کی بات ہے کہ ملکوں ملکوں گھومنے والے جاپانی پائلٹ مسٹر چِھکارا مراکامی اور ان کی مسز ہمارے بعض احباب کے قائل کرنے پر ایک ہفتے کے لیے پاکستان کے دورے پر تھے۔ وہ شیخوپورہ میں ہمارے عزیزوں کے ہاں مقیم تھے، جہاں سرسوں کا ساگ اور چٹ پٹے کباب کھاتے کھاتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے لیکن ان کا انداز بتاتا کہ دل ابھی بھرا نہیں۔لاہور آئے تو یہاں کی ٹریفک کو دیکھ کے کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ مَیں نے ان سے لاہور کی آلودگی کی بابت دریافت کیا تو کہنے لگے کہ پندرہ سال تک ٹوکیو سے رنگون اور ممبئی میرے روٹ رہے ، تب تک ممبئی دنیا کا سب سے گندا شہر ہوتا تھا، جس کو تین کلومیٹر اوپر سے ہم بدبو کی وجہ سے پہچان لیتے تھے… ہم نے انھیں بتانے سے گریز کیا کہ ہم ان سے یہ اعزاز کب کا چھین چکے ہیں۔ ہم نے کچھ عرصہ پہلے لاہور کی موجودہ صورتِ حال کو بیان کرنے کے لیے شاعرِ مشرق کے سو سال قبل کہے گئے شعر میں ہلکی سی ترمیم کی تھی، جو ظاہر ہے اسے نہیں سنائی جا سکتی تھی: کبھی اقبال کا موقف بہت مضبوط ہوتا تھا ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ مگر لاہور کی آلودگی اب ہم سے کہتی ہے ذرا ’کم‘ ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی یقین جانیں بعض حلقوں کی ڈھٹائی، انتقام، لالچ یا ضد کی بنا پر اس وقت ملک کی سیاسی، مالی، مذہبی، تعلیمی، اخلاقی، زرعی، زمینی، فضائی صورتِ حال ایسی ہو چکی ہے کہ ہر طبقہ پریشان ہے۔ روز افزوں مہنگائی ، بسیط بے یقینی، سماجی ابتری اور ہر طرح کی آلودگی، بے ہودگی کی حدیں مایوسی کے دائرے میں داخل ہو چکی ہیں اور بلا تفریقِ عام و خاص سب کی زبان پر حکیم جی کے بقول یہی الفاظ ہیں: یاں میسر نہیں ہم کو آسودگی پھیلتی جا رہی ہے یوں آلودگی