اورینٹل کالج سے تعلق جوں جوں پرانا ہوتا جاتا ہے، اعلیٰ شراب کی طرح اس کا نشہ فزوں تر ہوتا جاتا ہے۔ 1986ء میں استوار ہونے والا یہ ناطہ تو اب سینتیویں سال میں داخل ہو چکا ہے لیکن اس تعلق میںکہنگی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس ادارے کو ہمیشہ صرف محبوب کی نظر سے دیکھا ہے، یہ الگ بات کہ یہاں پہ ورود کرنے والے کو بالعموم رقیب کی سی ’پذیرائی‘ نصیب ہوتی ہے، وہ بھی فیض ولا نہیںغیظ والا رقیب ۔ چوبیس پچیس جنوری کو یہاں سجایا گیا دو روزہ میلہ کہ جسے منیر نیازی کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ منیر نیازی کی شعری اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بات فہم سے بالا ہے کہ اورینٹل کالج سے باقاعدہ وابستہ، علامہ اقبال، مولانا محمد حسین آزاد، حافظ محمود شیرانی، سید عبداللہ، علامہ فیض الحسن سہارنپوری جیسی شخصیات کے ہوتے ہوئے اس ابتدائی سلسلے کو کسی دوسری شخصیت سے منسوب کرنے میں کیا مصلحت تھی؟ بلکہ اگر اس میلے کو اورینٹل سے وابستہ زندہ شخصیات، مثلاً ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اسلم انصاری، عطا الحق قاسمی، ڈاکٹر مظہر معین کے نام کیا جاتا اور ان میں سے دستیاب شخصیات کو دونوں دن دولھے کی طرح رکھا جاتا تو یہ ان کی زندگی کی بھی بہترین یادگار ہوتی۔ یہاں سب سے زیادہ عرصہ گزارنے والے اور اب تک پروفیسر امریطس کے درجے پر فائز خواجہ صاحب (جو یہاں دونوں دن دکھائی نہیں دیے) کو تو لوگ اورینٹل کا چھوٹا بھائی سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو ان کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ بہرحال ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر فخرالحق نوری کو دیکھ کے خوشی ہوئی۔ سابقہ متعلقین میں عارفہ ثمین اختر، ڈاکٹر عنبرین منیر، ڈاکٹر وحید الرحمن، ڈاکٹر طارق ہاشمی، اکرم عتیق، اقبال چیمہ، عمران ظفر، مختار حُر، چودھری سرفراز، حامد علی لالی، شفیق احمد کو دیکھ کے اچھا لگا۔ ان خلشیات کے باوجود یہ ایک اچھی کاوش تھی، جس پر ادارے کے پردھان ڈاکٹر معین نظامی، منتطمین ڈاکٹر شعیب احمد اور مشتاق احمد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہم دونوں دن اس میلے کا حصہ رہے۔ ویسے بھی پینڈوؤں کو میلوں ٹھیلوں کا ماحول اچھا لگتا ہے۔ کتاب میلہ، چائے، کافی، پٹھورے، دہی بھلے، میلے کا بھرپور تأثر ابھار رہے تھے۔ پہلے دن بارہ بجے کے بعد پہنچے تو ایسی ویرانی تھی کہ ناصر کاظمی ساتھ ہوتے تو پوچھتے: شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے؟ گاڑی کے لیے حکم ہوا کہ پیچھے ہاسٹل کی طرف لے جائیں۔ اسی بہانے اپنا ہاسٹل دیکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، گاڑی عین اپنے کمرے کے سامنے پارک کی، جو کبھی 13 نمبر اور اب 4 نمبر ہے۔ ایک قلق ہمیشہ یہاں آ کے ہوتا ہے کہ اب اس کا نام وولنر ہاسٹل نہیں، شاید اسی لیے سر الفریڈ وولنر مال روڈ پہ اس کی جانب پُشت کیے کھڑے ہیں۔ ہمیں آج تک ان تاریخی جگہوں کہ جہاں مخصوص کمروں میں عظیم شخصیات کا قیام رہا، کے نام اور نمبر بدلنے والوں کی ذہنیت کی سمجھ نہیں آئی۔ مذاکرے، ترنم اور بیت بازی کے ساتھ دونوں دن مشاعرے کی طرح بھی ڈالی گئی۔ پہلے دن والے مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر سعادت سعید اور نظامت احمد عطا نے کی، جس میں ہم نے دیگر کلام کے ساتھ منیر نیازی اور یخ بستہ موسم کے حوالے سے یہ پیروڈی بھی پیش کی: ؎ کُجھ اُنج وی ساہواں اوکھیاں سَن کُجھ گل وچ دمے دا طوق وی سی کُجھ موسم وی برفیلا سی کُجھ سانوں ٹھرن دا شوق وی سی دوسرے روز والے مشاعرے کے صدر جناب ڈاکٹر خورشید رضوی تھے، جن کا عصری شعور سے لبالب یہ شعر حاصلِ مشاعرہ تھا: ؎ عجب دیار ہے یہ ، جس میں تاجداروں کے جَڑے ہیں تاج میں ہیرے ، خزانہ خالی ہے دوسرے دن کا میلہ ختم کر کے ابھی گھر بھی نہیں پہنچے تھے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (9 فروی 1940۔ 25 جنوری 2024ئ) کے سانحۂ ارتحال کی خبر ملی۔ یادوں کا ایک طویل سلسلہ پرت در پرت کھلتا چلا گیا۔ اورینٹل ہی کے حوالے سے ہمارا اُن سے تعلق تو اب چوتھی دہائی کے دروازے پہ بیٹھا تھا۔ ان کا شمار اورینٹل کے غیر متنازع، شریف تر اور محنتی ترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔ وہ ہمیں اقبالیات پڑھانے کے علاوہ ایم اے کے مقالے ’محمد خالد اختر: فن اور شخصیت‘ میں میرے نگران بنے، جسے بعد ازاں اکادمی ادبیات نے شایع کیا تو یوسفی جی نے اسے اکادمی کی بہترین کتابوں میں شمار کیا۔ مَیں نے اساتذہ میں پہلا خاکہ انھی ڈاکٹر صاحب کا ’بھلا مانس پروفیسر‘ کے عنوان سے لکھا، جس کے بعض جملے بہت’وائرل‘ ہوئے، مثلاً: ’’ہاشمی صاحب کا گھر بچوں اور کتابوں سے بھرا پڑا ہے لیکن خاموشی کا یہ عالم کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ بچے کون سے ہیں؟ اور کتابیں کون سی؟‘‘ ’’اقبال سے محبت کا یہ عالم کہ کسی کو اقبال سے متعلق خواب بھی آئے تو اس کی فوٹو کاپی کرا کے رکھ لیتے ہیں۔‘‘ ’’تفہیم اُردو‘‘ میں ہماری ساجھے داری ربع صدی سے زائد عرصے کو محیط ہے۔ ہمارے زمانۂ طالب علمی میں حج پر جانے لگے تو جمیل احمد عدیل کہنے لگا: ’یار کوئی ہاشمی صاحب سے پوچھے کہ وہ اس سے زیادہ کیا نیک ہوں گے؟‘ مَیں نے اقبال ٹاؤن میں وحدت روڈ کے قریب گھر لیا، کبھی منصورہ سے اپنے بیٹے عمیر یا عبداللہ شاہ ہاشمی کے ساتھ روانہ ہوتے تو فون کرتے کہ اگر گھر پر ہیں تو مَیں گزرتے گزرتے ایک کتاب پکڑانا چاہتا ہوں، مَیں اصرار کر کے بٹھا لیتا تو انھیں چھیڑنے کے لیے کہتا: ’ ڈاکٹر صاحب میں اقبال ٹاؤن میں رہتا ہوں، پہلو میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے، شہر اقبال سے لیکچرشپ کا آغاز کیا، لب پہ آتی ہے ساری کی ساری منھ زبانی یاد ہے، اب بھی مجھے ’ماہرِ اقبالیات‘ کہا جا سکتا ہے کہ نہیں؟‘ تو ہنس کے رہ جاتے۔ نوجوانی میں اپنی مزاح نگاری کا بھی تذکرہ کرتے۔ ان سے آخری ملاقات تیس دسمبر 23ء کو سیالکوٹ میں ہوئی، جہاں ’بزمِ اُردو کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ جب میری شاعری کی کتاب ’’مجال‘‘ کے ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تو ان سے ملا۔ ایوارڈ لے کے اپنی نشست پہ پہنچا تو وٹس ایپ پہ ان کا میسج تھا کہ ’مجال‘ پہ ایوارڈ بھی مل گیا لیکن مجھ تک نہیں پہنچی۔ سوچا موسم کی یخ بستگی ذرا نرم پڑتی ہے تو اب ’مجال‘ ہی کو وجہِ ملاقات بنایا جائے گا ۔ ہمیشہ کی طرح ان کے گھر 28۔ڈی منصورہ (کہ ’تفہیم اردو‘ کی تصنیف و ترمیم و تزئین کے دوران جہاں بہت سی دوپہریں اور شامیں ان کے ساتھ گزریں) کے سامنے دھوپ میں بیٹھ کے چائے پی جائے گی، لیکن وہ ہمارے اس سپنے کی تعبیر سے پہلے ہی سُفنہ ہو گئے۔ اسلام، اقبال، تحقیق اور اپنے شاگردوں سے بے لوث محبت تھی۔ منصورہ اور پنجاب یونیورسٹی میں ادا کی گئی نماز جنازہ میں ان کے محبان لاہور، اسلام آباد، سرگودھا اور دیگر شہروں سے جوق در جوق شامل ہوئے۔