جیسے عزیر علیہ السلام سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوئے جیسے مرشلینا، مرنوش اور یملیخا (اصحاب ِکہف) تین صدیوں کے بعد نیند سے بیدار ہوئے ایسے ہی " اک کتھا انوکھی" میں اس تلمیح کی بازیافت کرتے ہوئے وقت کو نظر انداز کر کے نئے معانی کا در وا کیا گیا ہے۔عزیر علیہ السلام کے والد کا نام یرمیاہ ہے۔ساتویں صدی قبل مسیح عراق کے بخت نصر یروشلم سے سارے یہودیوں کو گرفتار کر کے بابل لے آیا تب اس کے ایک مصاحب نے بتایا کہ ایک قیدی یروشلم میں اب بھی قید میں ہے۔وہ قیدی بنو اسرائیل کو تمہارا نام لے کر ڈرایا کرتا تھا۔ اسے بھی بابل لایا گیا یہی عزیر علیہ السلام کے والد تھے۔اک کتھا انوکھی کا مرکزی کردار ایک طویل نیند سے بیدار ہوتا ہے تو زمانہ بدل گیا ہوتا ہے۔نیند کے ماتے کو بتایا جاتا ہے کہ آخری یگ بیت چکا ہے۔سورج میں کالک اگ آئی چاند کا ہالہ ٹوٹ گیا ہے۔گھاس جل گئی ہے ندیوں میں پانی خشک ہو چکا ہے اور جس سنہری بیج سے برہمانڈ اگا تھا وہ اسی کے اندر اتر گیا ہے۔لیکن سونے والا اپنے بدن کی چھال میں لپٹا پڑا ہے۔وہ دوبارہ باہر آنے سے ڈرا ہوا ہے اور دوبارہ برہمانڈ کے اگ آنے کو گناہ سمجھتا ہے۔یہ اس کتھا کا ابتدائیہ ہے۔اس نظم کی پراسرایت ایسی ہے کہ اس تجربے میں شریک ہونے کو جی کرتا ہے کہ نیند کے ماتے کے نیند کے دوران اس عالم آب و گل کا نیا نقشہ مرتب ہو گیا ہے۔آخری یگ گزر چکا ہے اور ماس کے جلنے کی بو آ رہی ہے۔چہرے بے نام ہو چکے ہیں اور انسان لوہے کے روبوٹ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ساگر ایک کیڑوں کا جوہڑ بن چکا ہے۔اس نظم کا ترجمہ معروف شاعر ڈاکٹر یونس خیال نے انتہائی عرق ریزی سے کیا ہے۔ڈاکٹر یونس خیال نے اس طویل نظم کے ساتھ شاعر کی دیگر سولہ نظموں کو بھی پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ جنگل سی اک بڑا پرانا/گھنیاں جھاڑیاں بھریا جنگل/ جس دیوچ/ اک کلی اندر/ اپنے جثے دی کھلڑی وچ/ لکیا ہویا گم صم بیٹھا/ خورے کد توں/ کتنے ورہیاں تے صدیاں دے/ خورے کنیاں ای مدتاں دے/ گل وچ پاٹے لیڑے پا کے/ مٹی تھلے ٹْٹّے پْھٹے دانے وانگوں/ چپ چپیتا انج پیا سی/ اوس نوں کوئی ہوش نہیں سی انہی ترجمہ شدہ سطروں اور اصل نظم کی لائنوں میں شاید کوئی ایک کسر کی آنچ ہی رہ گئی ہو ورنہ اس پر ترجمہ نہیں طبع زاد تخلیق کا گمان ہوتا ہے۔ یونس خیال نے پندرہ اور نظمیں منتخب کر کے ان کا ترجمہ کیا ہے اس لحاظ سے یہ وزیر آغا کی نظموں کا انتخاب بھی ہے اور ترجمہ بھی۔ان نظموں میں ہماری اور ساقی فاروقی کی پسندیدہ نظم ٹرمینس بھی شامل ہے بلکہ نظم کا عنوان بھی اسی کا تجویز کردہ ہے۔جہاں ترجمے کی چند سطریں پیش کی گئی ہیں جی چاہتا ہے کہ نظم ٹرمینس کی چند لائنیں لکھی جائیں۔ٹرمینس یوں آغاز ہوتی ہے وہاں کچھ نہیں تھا/ بس اک ننھا منا سا چوکور/ لوہے کا کمرہ /جو دفتر رہائش، ٹکَٹ گھر، سبھی کچھ تھا/ کمرے کے باہر/ نظر کی مسافت پہ/ اک سرخ سگنل تھا/ اور سرخ سگنل کے نیچے/ سیہ، ریل کی لائنیں/ اک پہاڑی کے سینے سے ٹکرا کے/ رک سی گئی تھیں/ ہزاروں برس سے/ وہیں " چھنّی کِھچّی" کے قدموں میں/ بے حس پڑی تھیں۔ ڈاکٹر یونس خیال ترجمے کی زبان اور اس کی رموز و اسرار سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے ترجمے میں کہیں بوجھلتا محسوس نہیں ہوتی۔ایسے لگتا ہے کہ اصل نظمیں شاید پنجابی زبان میں لکھی گئی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ترجمہ کرتے وقت وہ کسی دقت کا شکار نہیں ہوئے ہوں گے۔ہم خود نظم میں ترکیب سازی سے گریز کرتے ہیں اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں کسی شمالی زبان کی لفظیات سے دور ہی رہتے ہیں۔نظم میں اپنا لوکیل نظم نگار کی راہ میں رکاوٹ نہیں نظم نگار کی طاقت بنتا ہے۔یہی کچھ یہاں ترجمے میں روا رکھا گیا ہے۔نہ آغا صاحب نے دور از قیاس زبان استعمال کی ہے اور نہ ترجمہ نگار نے اپنی علمیت کا اظہار کیا ہے۔مغرب میں جس سپوکن لینگوئج کی بات کی جاتی ہے اس کو یہاں صحیح معنوں میں میرا جی، حلقہ ارباب ذوق اور اہل اوراق نے اپنایا۔ترکیب سازی سے پرہیز کی بہترین مثالیں سمندر کا بلاوا، کلرک کا نغمہ ِمحبت، مجھے گھر یاد آتا ہے اور بہت سی دوسری نظمیں ہیں۔یہی اسلوب وزیر آغا نے اپنی نظم میں اور یونس خیال نے ترجمے کے وقت اختیار کیا ہے۔انہوں نے اک کتھا انوکھی کا ترجمہ تو نوے کی دہائی میں کر لیا تھا مگر اس کی اشاعت ترجمے سے ربع صدی بعد ہو رہی ہے۔ یونس نے بھی کتاب میں شامل اعتراف کے نوٹ میں ڈاکٹر وزیر آغا سے ایسی ہی اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ آغا صاحب کے گرد جمع لوگ بھی ان کی زندگی کے آخری سالوں میں ان سے الگ ہو گئے تھے۔اوراق کے ذریعے متعارف ہونے والے ان سے کھچے کھچے رہنے لگے۔اب ان لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر ان کو Disown بھی کرنا چاہتے ہیں۔اس استرداد کے دور میں ڈاکٹر یونس خیال نے ان کی ایک کتاب اور درجنوں نظموں کا ترجمہ کر کے اس حلقے کو جگانے کی کوشش کی ہے۔اصحاب ِکہف کے قصے کی ایک(اور شاعروں کی نظر میں اصل) غایت شہزادی پریسکا ہے۔ قصے میں شہزادی پریسکا سے جب شادی کا اصرار کیا جاتا تھا تو وہ انکار کر کے کہتی کہ وہ پاک ہے اور ایک بڑے عہد کی پابند ہے۔ایک عہد ڈاکٹر یونس خیال نے بھی پلے باندھا ہوا ہے کہ بڑوں کو بڑا ماننا بڑے پن کی نشانی ہوتی ہے۔ اک کتھا انوکھی میں کائنات کے لیے شاعر نے" برہمانڈ " کا لفظ کیا ہے جسے انگریزی میں Cosmic Egg کہا جاتا ہے۔اپنی زبان میں سمجھنا چاہیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ برہما کے انڈے کی بات ہو رہی ہے۔ہماری ماں بولی کا دن آ پہنچا ہے اس موقع پر اصل مبارک باد تو یونس خیال کو ہی بنتی ہے کہ ماں بولی دہاڑ پر اپنی مادری زبان سے پیار کرنے والوں کا مان بڑھایا ہے کہ اک کتھا انوکھی کا ترجمہ تخلیقیت سے لبالب بھرا ہے۔