سکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کو بلوچستان میں ایک اہم کامیابی ملی ہے ۔برسوں سے مسلح کارروائیاں کرنے والے ہائی ویلیو ٹارگٹ گلزار امام عرف شمبے گرفتار ہوگیا۔ گلزار کی گرفتاری نہیں ،اہم خبریہ ہے کہ اسے احساس ہوا کہ وہ بلوچ قوم اور ریاست پاکستان کے تعلق کے بارے میں تخریبی عناصر کے بہکاوے میں آ گیا تھا۔گلزار امام کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کا بانی ہے۔وہ پنجگور اور نوشکی میں سکیورٹی فورسز اور اداروں پر حملوں میں ملوث رہاہے۔ گلزار امام بلوچ راجی آجوئی سانگر کی تشکیل میں بھی اہم کردار کا حامل رہا ہے ۔بی این اے کے حلقوں میں اس کی رائے اور اثر ورسوخ کو اہمیت حاصل تھی ۔گلزار عرف شمبے کے افغانستان اور بھارت کے دورے ریکارڈ پر ہیں۔ گرفتاری کے بعد گلزار امام کے دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ گلزار امام عرف شمبے 1978 میں بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پروم کے مقام پر پیدا ہوا۔2009 تک ٹھیکیدار اور نیوز رپورٹر کی ملازمتیں کیں۔ 2018 تک کالعدم بلوچ ریپبلیکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کا نائب رہا ۔گلزار امام 11 جنوری 2022 کو بلوچ ریپبلیکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام کے نتیجے میں بننے والی بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا سربراہ منتخب ہوا۔گلزار شمبے کی گرفتاری اور پھر اس ریاست کے سکیورٹی اداروں سے تعاون پر آمادگی ایک خاص حمکت عملی اور پس منظر کی حامل ہیں۔ جمعہ اکیس اپریل 2017 کو تقریباً 500 بلوچ عسکریت پسندوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔یہ وہ وقت تھا جب چین سی پیک منصوبے پر کام شروع کر رہا تھا ۔ کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد بلوچ عسکریت پسندوں نے قومی پرچم اٹھا کر مارچ کیا۔ ہتھیار ڈالنے والوں میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، بلوچستان ریپبلکن آرمی (BRA)، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور لشکر بلوچستان کے ارکان شامل تھے۔ان لوگوں کا کہنا تھا کہ’’ ہمیں براہمداغ بگٹی نے گمراہ کیا۔ ہمیں اب پتہ چلا ہے کہ وہ ہندوستان کے لیے کام کرتا ہے۔ ہم اپنے ہی ملک میں کسی دوسرے ملک کے لیے کیوں لڑیں۔‘‘ ۔ براہمداغ بگٹی یورپ میں مقیم جلاوطن عسکریت پسند ہے جس نے بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ بلوچستان پاکستان کے چار صوبوں میں سب سے بڑا ہے۔اس کا وسیع علاقہ اور معدنیات اس کی دولت ہیں ۔بلوچستان کے بعض حصوں پر سرداروں کا تسلط ہے ۔ تمام سردار پاکستان مخالف نہیں لیکن کئی جگہ ان کے خاندانوں کی وفاداریاں بٹی ہوئی ہیں ۔عام بلوچ ریاست کی مہربان شکل سے اس لئے واقف نہیں کہ اسے گمراہ کرنے والے اپنے سوا کسی کو اس کا خیر خواہ قرار دینے کے روادار نہیں۔ عسکریت پسندوں نے ضلع کوہلو کے علاقے کاہان میں منعقدہ خصوصی جرگے میں وعدہ کیا کہ وہ اپنے ہتھیار حوالے کریں گے اور پرامن زندگی گزاریں گے،انہوں نیکہا کہ وہ کسی تخریب کاری میں حصہ نہیں لیں گے۔ 2018 میں پھر ایک موقع آیا جب مختلف کالعدم تنظیموں کے اہم کمانڈروں سمیت کم از کم عسکریت پسندوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔ سرکاری حکام کا کہنا تھاکہ تمام عسکریت پسندوں نے ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے ہتھیار ڈالے۔مقامی ذرائع کے مطابق 265 عسکریت پسندوں نے تشدد کو ترک کیا اور قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے اور ملک کے امن اور ترقی کے لیے کام کرنے کا عزم کیا۔عسکریت پسندوں کا ہتھیار ڈالنا صوبے میں جاری سیاسی مفاہمت کا حصہ ہے جو کہ 2015 میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباً 2,500 عسکریت پسندوں نے ہتھیار پھینک کر پر امن شہری بننے کا وعدہ کیا ہے ۔ گلزار امام شمبے کا کہنا ہے کہ آزاد بلوچستان کی تحریک کے دوران اس پر دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اصل عزائم آشکار ہوئے۔اسے محسوس ہوا کہ بلوچ نوجوانوں کو غلط معلومات کے ذریعے دشمن کا آلہ کار بنایا جا رہا ہے ۔بلوچ نوجوان اپنے علاقے کی پسماندگی دور کرنا چاہتے ہیں ، وہ اپنے خاندانوں کو خوشحال بنانے کے آرزو مند ہیں لیکن انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ریاست ان کے وسائل ہڑپ کر رہی ہے۔دسمبر 2017 میں گلزار امام شمبے نے گل نوید کے نام سے افغانی پاسپورٹ پر بھارت کا دورہ کیا۔انٹیلی جنس اداروں نے گلزار امام عرف شنبے کو بلوچستان سے گرفتار کیا۔اس کی گرفتاری کالعدم تنظیموں اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔گرفتاری کے بعد گلزار امام کو حقیقت کا ادراک ہوا تو اس نے ملکی سکیورٹی اداروں سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ طویل دورانیے تک شدت پسندی کی راہ پر چلنے کے بعد گرفتاری کے دوران مشفق ریاستی رویے نے گلزار امام کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔اسے دکھ ہے کہ وہ اپنے خیر خواہ لوگوں اور ریاست کو تکلیف دیتا رہا ۔گلزار امام کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں کی حالیہ تحریک بلوچی عوام اور پاکستانی ریاست کے لیے نقصان دہ ہے۔ کچھ ماہ قبل سکیورٹی اداروں نے کراچی سے ایک خاتون کو گرفتار کیا تھا۔اس نے بتایا تھا کہ کس طرح اس کا سسرالی خاندان عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اسے بلیک میل کر کے اپنا حصہ بنایا ۔ خاتون کے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ عسکریت پسند سیدھے سادے بلوچ نوجوانوں کی غربت، پسماندگی ، سادہ لوحی اور بعض اوقات جوشیلے جذبات کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ گلزار امام شمبے کی گرفتاری ایک اہم پیشرفت ہے ۔سکیورٹی اداروں کے خیر خواہانہ سلوک سے اگر عسکریت پسند اپنی سوچ بدل رہے ہیں تو یہ صرف گرفتار خاتون اور گلزار شمبے کے حوالے سے نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اسے بد امنی کے شکار علاقوں میں بہتری کی کوششوں کے بار آور ہونے کی دلیل سمجھ کر تجزئیے کا حصہ بنانا چاہئے۔