ہمارے سیاسی محبوب عشقیہ محبوبوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔لہذا فراز سے ہماری ادبی نہیں سیاسی چپکلش ہے کہ ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا اسی سبب سے کبھی ہمارا عشق چوہدری شجاعت حسین سے تھا۔پھر تاریخی سنہری سولہ ماہا دور میں ہم شہباز شریف کے عشق میں مبتلا رہے کہ انوار الحق کاکڑ وزیر اعظم بن گئے اور ہمارے محبوب بھی۔عشق کیا بھی تو وزرائے اعظم کے لیول سے کیا اس سے نیچے کبھی کسی کو گھاس نہیں ڈالی۔ایک معاصر میں ان کے دلکشا خیالات شائع ہوئے تو سوچا کہ اپنے محبوب رہنما کو خراج ِتحسین پیش کرنا تو بنتا ہے۔ان کے خیالات ِعالیہ گویا وہ زریں اقوال ہیں جن میں ہزارہا مفاہیم کے خزائن پوشیدہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ" شاید مستقبل میں سیاسی جماعت بنا لوں"۔ یہ خیال مجھے استحکام پاکستان پارٹی کے عروج سے القا ہوا ہے۔چونکہ اس پارٹی کا مقصد بھی سر تا پا استحکام ہے۔ملک و قوم کا درد علیم خان کو بھی رات کو چین نہیں پڑنے دیتا اور یہی حال میرا بھی ہے۔ملک کے لیے دیوانہ دیوانہ سا پھرتا ہوں۔ملک کے عشق میں آہیں بھرتا ہوں کبھی صحرا کی طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی جنگل کی طرف۔ علیم خان کو آوازیں دیتا ہوں اور میاں داد خان سیاح کو یاد کرتا ہوں کہ قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو الیکشن سے پہلے لگتا تھا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ ساتھ میرا دل دھڑک رہا ہے مگر شبہ سا ہو چلا ہے وہ طبیعت کی گرانی کے سبب سے تھا۔ اصل میں قائد ِانقلاب علیم خان کے ساتھ ہی میری جوڑی سجتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ" نگران دور میں انسانی حقوق کی زیادہ خلاف ورزیاں نہیں ہوئیں"۔یہ جو ماہ نور بلوچ نے اسلام آباد میں آ کر رنگ میں بھنگ ڈالی تھی اور جس طرح ان کو دو وقت کا کھانا اور سونے کے لیے بستر وغیرہ دینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہنا توہین ِحقوق کے ضمن میں آتا ہی نہیں ہے۔کیوں کہ اس کے قافلے کو ڈیرہ غازی خان میں داخلے کے وقت ہی اچھا خاصا سمجھا دیا تھا مگر جو نہ سمجھے اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں ہم اکبر الہ آبادی کے قتیل ہیں ان کا ارشاد ہے ہم ایسی کل کتابیں قابل ِضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں دوسرا خلاف ورزی کا الزام ہے کہ الیکشن نوے دنوں کے اندر نہیں منعقد کروائے گئے ،اس کا انسانی حقوق سے کیا لینا دینا ہے۔خود ہمارے وطنی بھائی اسلم رئیسانی کا ارشاد ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے سو الیکشن الیکشن ہوتے ہیں۔خواہ وہ نوے دن کے اندر ہوں یا نوے دن سے باہر ہوں۔سوئم لوگوں کو جیل میں ڈالنا اگر حقوق کی خلاف ورزی ہے تو اس کے اپائے کا بندوبست بھی تو ہم نے ہی کرنا ہے۔اتنے لوگوں کو جیل کے اندر چھت مہیا کرنا ان کی صبح شام روٹی پانی کا بندوبست کرنا عین عبادت اور اسلامی فریضہ ہے۔اس کا ثواب اس جہان میں بھی ہمیں نصیب ہو گا اور اگلے جہان بھی اللہ پاک کے عفو و درگزر کی امید ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلانا کئی عبادات سے افضل عمل ہے۔ اسی افضل عمل کی خاطر عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو پا بجولاں رکھنے کا انتظام کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ "نگراں حکومت میں فواد حسن فواد، محمد علی، اعجاز گوہر اور شمشاد اختر کی کارکردگی سب سے بہتر رہی"۔ اصل میں ہم سب کی کارکردگی لاجواب تھی کسی ایک کا ذکر کرنا مقصود نہیں یہ سارے ہی لعل و جواہر یکساں مول کے ہیں۔ ہم ریاست کو آب رواں سمجھتے ہیں ،اسے رواں رہنا چاہیے۔اسی لیے میں نے خود بھی ریاست کے کاموں میں مداخلت کی ہی نہیں اور میری دیکھا دیکھی ان چاروں نے بھی نگران دور میں آنکھیں اور زبان بند ہی رکھی ہے۔اس سلسلے میں سیاحت کے وزیر اور شاعر وصی شاہ کی بھی خدمات کو جھٹلانا بددیانتی ہو گی۔جتنا عرصہ بھی وہ وزیر رہے ہیں انہوں نے خاموشی عبادت ہے کے مصداق چپ رہنے کی روٹین برقرار رکھی۔انہیں معلوم ہے کہ انسان کی طاقت اس کی زبان کے نیچے چھپی ہے۔اور جو کہا جاتا ہے کہ بولو تا کہ پہچانے جاؤ۔وہ اس کے قائل نہیں ہماری طرح وہ بھی غنی اور فقیر طبیعت کے مالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ" بیوروکریسی ایک خوف کے عالم میں کام کرتی ہے"۔یہی وجہ ہے کہ ایک کمشنر نے اس خوف کے عالم سے نکل کر ہی ساری باتیں کیں۔اور انہوں نے جن کارہائے نمایاں کا اعتراف کیا یہ انہی کا حصہ ہے۔اقبال شاید ان کے بارے میں ہی فرما گئے تھے۔ مقام ِشوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد میں تو اب تک سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ کیا ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔اس کو اگر دوسرے اینگل سے دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اوکھلی میں سر دینا اسی کو کہتے ہیں۔کرنل محمد خان اپنی شہرہ آفاق کتاب کے پہلے صفحے پر ایک عارف کا قول نقل کرتے ہیں کہ"جہاں رہو خوش رہو"۔ یہ قول ایک عارف کا دوسرے عارف کے بارے میں تھا جو چلتے چلتے کنوئیں میں گر گیا تھا۔اس نے چلا چلا کر بتایا کہ میں کنوئیں میں گر گیا ہوں۔پہلے والا عارف بولا میرے یار میرے میرے جگر جہاں رہو خوش رہو۔کمشنر کے لیے بھی اسی عارف کا قول دوہرانا مناسب لگتا ہے۔کمشنر صاحب جہاں رہو خوش رہو۔ انہوں نے کہا "وزیر اعظم نگران ہی کیوں نہ ہو اس کا فیصلہ سازی میں کردار ہوتا ہے"۔اگرچہ مجھے یقین ہے کہ میری باقی باتوں کی طرح اس کا بھی یقین کوئی نہیں کرے گا۔حالانکہ جب میں ایک دفعہ کہہ دیا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں " میری پسندیدہ ترین جگہ میرا بیڈ روم ہے" تو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔اگر اس پر یقین کرنے میں کسی کو تامل ہے تو وہ نگران وزیر اعظم بن کے دیکھ لے۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔