عالمی معاشی فورم ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو دنیا کے حالات کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ اس کے سالانہ اجلاس خاصے مشہور ہیں جہاں دنیا بھر کے بڑے سیاسی رہنما اور دانشور جمع ہوتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ حال ہی میں اس ادارہ نے دنیا کو نئے سال 2022 میںلاحق خطرات پر مبنی ایک گلوبل رسک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس تحریر میں پاکستان کو درپیش خطرات میں قرضوں کے بوجھ کو سر فہرست قرار دیا گیا ہے۔قرضوں کے بوجھ کے بارے میں یہ رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب پاکستان حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کی خاطر اسکی شرائط پوری کررہی ہے۔ اگلے روز حکومت نے ایک ضمنی بجٹ پیش کیا جس میں تقریباًساڑھے تین سو ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔اپوزیشن کے واویلے میں قومی اسمبلی نے یہ بجٹ تجاویز منظور کرلیں۔ حکومتی وزرا کا موقف ہے کہ نئے اقدامات سے صارفین پر صرف ستّر ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ باقی ٹیکس جمع تو کیے جائیں گے لیکن دینے والوں کو واپس کردیے جائیں گے۔ ان کو لگانے کا اصل مقصد معیشت کو دستاویزی بنانا ہے۔تاہم اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ٹیکس ری فنڈ کرنے کے بارے میں ماضی میںحکومتی ادارہ ایف بی آر کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا۔ اس ادارہ سے ٹیکس ری فنڈ برسوں نہیں ملتے اور جب ملتے ہیں تو ان کے عوض افسروں کو ٹھیک ٹھاک رشوت دینی پڑتی ہے۔ مطلب کہ حکومت جو بھی کہے بوجھ کاروباری اداروں اور صارفین کو اُٹھانا پڑے گا۔ ضمنی بجٹ پر تنقید کی جارہی ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور ملک کی خود مختاری کو گروی رکھ دیا ہے۔ یہ تنقید خاصی مبالغہ آمیز ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ سے کوئی پہلی بار قرض نہیں لیا گیا۔ انیس سو پچاس کی دہائی سے لے کر اب تک پاکستان حکومت بائیس مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکی ہے۔ ہر سیاسی جماعت جب حکومت میں ہوتی ہے تو آئی ایم ایف سے اسکی شرائط مان کر قرض لیتی ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسکی مخالفت شروع کردیتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی ہر حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ عوام معیشت کی باریکیوں کو نہیں جانتے اور ماضی کی باتیں جلد بھول جاتے ہیں۔ اس لیے جب چاہو کسی اقدام کی حمایت کرلو ۔جب چاہو مخالفت۔ خود وزیراعظم عمران خان حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بیرونی قرض لینے کے سخت مخالف تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد انہیں علم ہوگیا کہ بیرونی قرضوں کے بغیر پاکستان کا معاشی نظام چلایا نہیں جاسکتا۔ گزشتہ پچاس برسوں میں پاکستان کی معیشت کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ یہ خود کفیل معیشت نہیں ہے۔ اسے بیرونی قرضوں کا سہارا چاہیے۔ قرض ایک نشہ کی طرح ہے جسکے بغیر ہمارا معاشی کاروبار نہیں چل سکتا۔ امیر اور اعلیٰ متوسط طبقہ کے لوگ پُرتعیش زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔وہ شاندار درآمدی گاڑیوں میں سفر کرنا چاہتے ہیں۔ باہر سے آئے کپڑے ‘ کھانے اور گھریلو استعمال کے سامان استعمال کرتے ہیں۔ انہیں کاریں دوڑانے کے لیے موٹرویز چاہئیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے شروع کے دو ڈھائی برسوں میں درآمدات پر کنٹرول کیا تو امیر لوگوں نے چیخیں مارنی شروع کردیں۔ معاشی ترقی کی شرح کم ہوگئی ۔ ایک برس پہلے حکومت نے پالیسی بدلی۔ درآمدات پر سے پابندیاں اُٹھالیں ۔ معاشی ترقی کی شرح بہتر ہوگئی لیکن زرِمبادلہ کے بحران نے سر اٹھا لیا۔ گزشتہ چھ ماہ میں تجارتی خسارہ پچیس ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ یہی حالات رہے تو مالی سال کے اختتام تک ہمارا تجارتی خسارہ پینتالیس سے پچاس ارب ڈالر ہوجائے گا۔ تخمینہ ہے کہ تیس ارب ڈالر تو بیرون ملک مقیم پاکستانی ترسیلات زر کی صورت میں بھیج دیں گے۔ باقی پندرہ سے بیس ارب ڈالر کی کمی کہاں سے پوری ہوگی؟ اس پر مستزاد ہمیں اس مالی برس(جون کے اختتام تک) میں تقریباً گیارہ سے بارہ ارب ڈالر کا زر مبادلہ ماضی کے قرضوں اور ان کے سود کو واپس کرنے کی خاطر درکار ہوگا۔ یعنی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے مجموعی طور پر لگ بھگ تیس ارب ڈالر درکار ہیں۔ ہمارے زیادہ تر لوگ اتنے بے صبر و بے حوصلہ ہیں کہ کسی چیز کی تھوڑی بہت قلت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مثلا ًقدرتی گیس ملک میں اتنی مقدار میں نہیں ہے کہ سردی کے موسم میں سب صارفین کو مہیا کی جاسکے۔ حالانکہ اچھی خاصی مقدارمائع شکل (ایل این جی)میں درآمد بھی کی جاتی ہے۔ لوگوں کی مکمل ضرورت کے مطابق ایل این جی باہر سے درآمد کرنے کی غرض سے بھاری زر مبادلہ یعنی چھ سات ارب ڈالر درکارہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ اتنے ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ جیسے غریب ماں باپ کے بچے مہنگی چیزوں کے لیے ضد کرتے ہیں وہی حال ہمارے لوگوںکا ہے۔ ملک کے اٹھارہ سے بیس ارب ڈالر سالانہ پیٹرول‘ ڈیزل اور قدرتی گیس کی درآمد پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ ہر سال اربوں ڈالر کی مشینری منگوانا پڑتی ہے۔ گزشتہ ایک برس سے کورونا ویکسین پر دو ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں اور ابھی مزید ہوں گے۔ یہ ویکسین لوگوں کو مفت لگائی گئی ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو اس بات کا شکر ادا کرتے ہیں؟رونا دھونا‘ سیاپا ڈالے رکھنا سب سے آسان کام ہے۔ وزیردفاع پرویز خٹک ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہیں ملک کی معاشی صورتحال اور گیس کی قلت کا علم ہے لیکن ضمنی بجٹ سے پہلے پارلیمانی کمیٹی میں وزیرتوانائی حماد اظہر سے الجھ پڑے کہ لوگوں کو گیس کیوں فراہم نہیں کی جارہی۔ جب جہاں دیدہ لوگوں کا یہ حال ہے تو عام لوگوںاور ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر سنسنی پھیلانے والوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی معاشی حالت پتلی ہے۔ ہمارے پاس اتنی مصنوعات نہیں کہ دنیا کو بیچ کر اپنی ضرورت کے مطابق زرمبادلہ(ڈالرز) کما سکیں۔ ملک میں ستّر برسوںمیں صنعتی ترقی نہیں ہوسکی۔ ہماری حکومتوں کے اخراجات ان کی آمدن سے دو گنا ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ساٹھ لاکھ افراد کو تنخواہیں اور پینشن دینے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ ان حالات میں حکومت کے پاس دو راستے ہیں ۔ ایک تو ٹیکس لگا کر آمدن میں اضافہ کرے اور پھر بھی گزارہ نہ ہو تو قرض لے۔ حکومت نے منی بجٹ پیش کرکے یہی کام کیا ہے۔نئے ٹیکسوں سے بھی اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ تجارتی خسارہ اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اسی لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا پڑا اور اس کی شرائط ماننی پڑیں۔