ایسا ہمارے نصیب میں تھوڑی لکھا ہے کہ ہم یوں ہی رہیں گے جو قومیں بروقت سمجھ گئیں یا حالات کے تھپیڑوں نے انہیں درست سمت کی طرف چلنے پر مجبور کر دیا وہ آج دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ تاریخ کو دیکھا جائے تو ہم سے بھی بدترین حالات بیشتر اقوام نے دیکھے مگر انہیں بہترین ادب ملا لکھنے والے ملے جو انہیں مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ بس یہی انقلاب تھا آخر بدلنا ہمیں بھی ہے بہتر ہوتا دنیا کے ساتھ ہم بھی بدل جاتے مگر افسوس کوئی ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں سب کو نظر آرہا ہے کہ ایسا ہمیشہ نہیں چل سکتا۔ قوم بہت قربانیاں دے چکیاب انتظار میں کرب شامل ہو چکا ہے۔ 13 اگست 1947ء تک ایک جاندار تحریک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو چکی تھی جس کی قیادت قائد اعظم فرما رہے تھے۔ آج کیا ہے ہمارے پاس قیادت تو وافر مقدار میں موجود ہے مگر نتائج دینے سے قاصر ہے۔ کیا انہیں آزادانہ کام نہیں کرنے دیا گیا یا ان میں قابلیت نہیں تھی؟ یا ہمارا نظام ہی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ ہم جدید جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اصل مسئلہ اس ملک کا معاشی طور پر غیر مستحکم ہونا ہے۔ دنیا میں چھوٹے چھوٹے ممالک بھی کچھ نہ کچھ بنا رہے ہیں اور اسے عالمی منڈیوں تک بیچ کر اپنی معاشی حالت کو مستحکم کر رہے ہیں۔ ہم نے ان 76 سال میں کیا بنایا ہے کچھ بناتے تو عالمی منڈیوں تک لے کر جاتے! عالمی منڈیاں معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتیں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگی بھی طلب کرتی ہیں ہمارے ہاں ریسرچ کا آج تک مربوط نظام ہی نہ بن سکا۔ توانائی کا بحران خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ گھریلو بجلی گیس مہنگی ہے تو تجارتی بنیادوں پر اس کا استعمال کیسے ممکن ہوگا؟ آج عام صارف 10 ہزار کے قریب بل ادا کر رہا ہے۔ انڈیا بنگلہ دیش میں عام صارف 400 سے ہزار روپے تک بل ادا کر رہا ہے اسی لیے ان کی انڈسٹری اور کاروبار چل رہے ہیں اور ہمارے لیڈروں کی مظلومیت ہی ختم نہیں ہو رہی لگتا ہے کہ ساری دنیا کے ظلم انہی پر ہوئے ہیں۔ ایک اندر ہوتا ہے دوسرا باہر اور پھر باہر والا اندر۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص طویل عرصے تک پسماندہ رہے تو وہ جانور کی طرح ہو جاتا ہے اسے صرف کھانے پینے اور جبلت کی فکر ہوتی ہے۔ یہی حال معاشروں کا بھی ہے آج ہر کوئی روٹی تک محدود ہو چکا ہے۔ پتھر کے زمانے میں زندہ رہنے کے لیے صرف خوراک ترجیح تھی دوسری ضروریات کا پتہ بھی نہیں تھا آج دوسری ضروریات حالات کی وجہ سے قربان کی جا رہی ہیں۔ جمہوریت کا مطلب اختلاف رائے ہوتا ہے ایک دوسرے پر تنقید ہوتا ہے نہ کہ مقدمات اور دشمنی جیسی صورتحال ۔ خان صاحب ان سے سلام لینا گوارا نہیں کرتے تھے اور آج بھی شاید اسی ضد پر قائم ہوں پہلے یہ بھی ایک دوسرے سے ایسا سلوک کرتے تھے مگر اعتدال میں آئے پھر خان صاحب آگئے ان سب کے متحد ہونے کا ایک فیصد بھی امکان نظر نہیں آتا۔ ادارے تباہ حال ہو چکے میرے ایک دوست نے 16 اگست کو آن لائن پاسپورٹ اپلائی کیا جب پاسپورٹ بنانے والوں نے نئی سروس شروع کی تھی آج کے دن تک اس بیچارے کا پاسپورٹ نہیں آیا۔ میں نے خود بھی بڑی کوشش کی کہ مسئلہ کیا جائے آن لائن شکایت بھیدرج کروائی تمام ذرائع استعمال کیے میل کی، کوئی جواب نہیں آیا۔ ہیلپ لائن ملتا ہی نہیں۔ ضلعی دفتر گئے آگے سے آفیسر صاحب بولے میرے کچھ بس میں نہیں آپ اسلام آباد رابطہ کریں میں نے خود پاسپورٹ جمع کروایا نارمل کروانا چاہتا تھا پتہ چلا کئی مہینے آتا ہی نہیں۔ ارجنٹ جمع کروایا سات دنوں میں آنا تھا 15 دنوں میں آیا۔ وہ دوست ابھی تک کشمکش میں ہے اس کا کیا بنے گا؟ کچھ بھی نہیں نہ وہ درخواست کینسل ہو رہی ہے اور نہ ہی دوبارہ جمع ہو سکتی ہے۔ اس نے عمرہ کرنے جانا تھا یہ تو ایک عام شہری کی صورتحال ہے ۔ دوسرے محکموں میں لوگ ایسے ہی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ افسر شاہی کا راج ہے ایک پٹواری پورے علاقے میں غلط زمینوں کے انتقال کروا کر خاندانوں کے خاندان دشمنیوں کی نذر کروا دیتا ہے۔ اندازہ لگائیں جن کے ہاتھ میں ضلع ہے صوبہ ہے یا پورا پاکستان ہے وہ کیا کرتے ہوں گے یہ نظام ایسے تھوڑی تباہ حال ہوا ہے۔ پیسے دیں اور گھر بیٹھے کام کروائیں۔ کیا دنیا میں آج بھی کہیں ایسا ہوتا ہے جس ریاست میں مذہب اور ریاست کا خوف ختم ہو جائے اسے کیا کہیں گے؟ کوئی ایک پیشرفت بتائیں جو بہتری کی طرف جاری ہو کہ تسلی ہو چند سالوں میں حالات بدل جائیں گے اب تو چہرے بھی نہیں بدلے جاتے تین تین باریاں لینے والے پھر نمودار ہونے والے ہیں، کیا ہوگا اگر یہ پھر کہیں ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ رکاوٹیں ڈالی گئی بس ہم انقلاب لانے ہی والے تھے پھر کہیں گے یہ سازش ہمارے خلاف نہیں پاکستان کے خلاف ہوئی۔ جو آج سہولتیں دے رہے ہیں کل انہی کے نام لے لے کر بتایا جارہا تھا پھر جو اندر ہیں وہ باہر آکر یہی کچھ کہیں گے اور پھر ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں ہٹائی جارہی ہونگی۔ خدارا بس کردیں کوئی ہے جو مستقل حل کا سوچے ایسے کب تک چلے گا۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ چھوٹے فیصلے مشکل ہو سکتے ہیں قوموں پر اس کے بڑے اثرات مرتب ہوتے ہیں کچھ ایسا کریں کہ عام آدمی کی زندگی آسان ہو۔ اہمیت اجتماعی ترقی کی ہوتی ہے ہمیں دنیا کیساتھ چلنا ہوگا ہر رکاوٹ ختم کرنی ہوگی جو فیصلہ آج ناگوار ہوگا اسی کا بہترین ثمر کل ملے گا۔ آنے والی نسلوں کے لیے بہترین ادارے کرپشن سے پاک معاشرہ اور ترقی یافتہ پاکستان ہمیں دینا ہوگا اپنی ضد انا اور ہٹ دھرمی کو قربان کیے بغیر ایسا کیونکر ممکن ہوگا ۔