ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے نارمل ڈلیوری چھوٹا آپریشن بڑا آپریشن۔ لگتا ہے ریاست نے شہریوں کو ایک مافیا کے سپرد کر دیا ہے ۔ڈر خوف پیدا کر کے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ سرعام لوٹ مار کی جا رہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ احمد نواز کی شادی پچھلے سال ہوئی اور اللہ تعالی نے ایک ماہ بعد ہی کرم فرما دیا وہ زوجہ کو لے کر لیڈی ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے چند انجیکشن اور ہر ہفتے چیک اپ کی تاکید کر دی۔ تقریباً پانچ ہزار اس پہلے وزٹ کا خرچہ تھا دوسرے ہفتے بچے کی گروتھ کے لیے چند مزید ادویات تجویز کر دی گئی اور خرچہ 12 ہزار روپیہ لیا گیا۔ ساتھ بے شمار ٹیسٹ کیے گئے اسی طرح ہر ہفتے ایسا سلسلہ چل نکلا تقریباً دو لاکھ اب تک خرچہ کیا گیا چار یوم قبل ڈاکٹر صاحبہ نے آپریشن کا کہا اور 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے صرف آپریشن کا بتایا ادویات کمرہ کے کرائے وغیرہ علیحدہ ہوں گے۔ خیر اس کے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن تھا مشورہ کیا کسی نے دوسری لیڈی ڈاکٹر کا بتایا وہاں چلے گئے اس نے 30 ہزار مانگا خون کا بندوبست کا بھی حکم ہوا جبکہ ایچ پی 12 تھی خون کا بندوبست کر لیا کچھ دیر بعد بتایا کہ ایک اور لیڈی ڈاکٹر کو بھی بلایا ہے ہم بچے کی نارمل ڈلیوری کی کوشش کرتے ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد خاوند کے دستخط انگوٹھا لگوایا اور آپریشن کا بول دیا ۔آپریشن کے بعد بیٹا پیدا ہوا ابھی مبارک مبارک کی صدائیں جاری تھیں کہ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے بولا فوراً انکیوبیٹر میں لے جائیں اس کا تو گمان بھی نہیں تھا کہنے لگی بچے کو سانس بڑی مشکل آرہی ہے۔ بچے کا وزن چھ پاؤنڈ بتایا اور بچہ رو بھی رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے دوسری جگہ جہاں انہوں نے بتایا فوراً بچے کو لے کر ا انکیوبیٹر میں چلے گئے۔ جہاں تقریبا 40 سے زیادہ بچے پڑے تھے۔ صرف تین بچے انکیوبیٹر مشین میں نظر آئے باقی جیسے الماری میں برتن رکھے ہوتے ہیں ایسے پڑے تھے فوری طور پر ایک انکیوبیٹر مشین میں ہمارے بچے کو رکھا ہمیں ادویات خوراک اور بچے کے ٹیسٹ کا بول دیا۔ ہم نیچے آکر بیٹھ گئے ایک گھنٹے بعد عملے نے بتایا کہ بچے کا ڈبلیو بی سی کا مسئلہ ہے لہذا اس سے رکھنا پڑے گا تقریبا دو گھنٹے بعد جب اوپر جا کر دیکھا تو ہمارا بچہ بھی انکیوبیٹر کی بجائے الماری میں تھا اور اسی مشین میں ایک اور بچہ تھا نشانی ہمارے پاس بچے کو پہنائے گئے کپڑوں کی تھی بظاہر بچہ ٹھیک نظر آرہا تھا مگر وہ کیا ہے کہ ایک خوف مسلط کر دیا گیا تھا اب تین دن ہو چکے ہیں ابھی تک بچے کو انکیوبیٹرمطلب الماری میں ہی رکھا ہوا ہے اور خرچہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب آچکا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کیا یہ ریاست کے اندر ریاست نہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹر کس کو کہتے ہیں؟ وقار ڈوگر مانچسٹر سے بتا رہے تھے کہ میرا ایک بچہ وہاں بھی پیدا ہوا کوئی لیڈی ڈاکٹر نے شروع میں ادویات کا پلندہ نہیں بتایا بس عام سی احتیاط کا کہا اور پھر جب وہ مطلوبہ تاریخ کو وہاں گئے تو انہوں نے زوجہ کو غبارے دیے کہ اس میں ہوا بھرتے رہیں کچھ دیر بعد وہ اندر لے گئے مجھے بھی بلایا اور کہا اپنی زوجہ کا ہاتھ تھام لیں اور صرف چند منٹوں میں نارمل ڈلیوری ہوگئی اور پھر بچہ مجھے پکڑا دیا اور ہم وہاں سے گھر آگئے کوئی ڈرپ انجیکشن نہیں کوئی ہدایت نامہ نہیں۔ کوئی انکیوبیٹر والا سین نہیں۔ کاؤنٹر پر میرا برٹش کارڈ لیا اور ایک پاؤنڈ بھی خرچ نہیں آیا۔ 90 کی دہائی تک سب کچھ نارمل ہی ہوتا تھا گھروں میں بچوں کی پیدائش ہوتی تھی اور صرف چند یوم بعد ہی ماں معمول کی زندگی گزار رہی ہوتی تھی۔ آج بھی دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آج جو 30 یا 40 سال کا نوجوان ہے ان سب کی نارمل ڈلیوری ہی ہوئی ہے پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک جال بچھا چکی ہیں اور لوگ مکمل گرفت میں آ چکے ہیں پوری دنیا میں ایسا بلیک میلنگ کا نظام دکھا دیں پھر انہوں نے یونینز بنائی ہوئی ہوتی ہیں۔ رات گئے سب اکٹھے ہوتے ہیں میڈیسن کمپنیاں پرکشش مراعات کا پیکج دیتی ہیں۔ سب کچھ ریاست اور ریاستی اداروں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے یہ لاپرواہی ہے بے بسی ہے کیا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے پتہ نہیں کون سا انجیکشن لگا دیا گلا خراب تھا میرا پورا جسم سن ہو گیا۔ سات دن ہسپتال میں داخل رہا۔ لاہور کے ایک ہارٹ سپیشلسٹ سے دو سال تک ادویات لیتا رہا اسی کے بقول اس انجیکشن نے میرے دل پر دباؤ ڈال دیا تھا یعنی لوگ اس لیے خاموش ہو جاتے ہیں کہ ان کا کیا بگڑے گا۔ سرکاری ہسپتالوں میں چلے جائیں وہاں اتنا رش ہوتا ہے کہ اتنے سارے مریضوں پر چند ڈاکٹرز کیسے توجہ دیں۔ صرف چند گھنٹے آپ وہاں گزاریں کچھ بعید نہیں آپ اسی مریض کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں جسے آپ لے کر آئے تھے اس سیارے پر سب سے تلخ ترین زندگی ہم گزار رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ لندن دبئی امریکہ سے علاج کروا کر اور واپس آکر کہتے ہیں بلکہ قوم سے مخاطب ہوتے ہیں کہ اس ملک کی تقدیر ہم بدلیں گے۔ آخری بات اسی انکیوبیٹر ہسپتال میں ایک آدمی فون پر کسی سے بات کر رہا تھا روتے ہوئے کہ اس بچے کی ماں کا زیور بیچ کر میں نے آپریشن کروایا اب ان کو پیسے کہاں سے دوں۔ میری مدد کرو۔میرے پاس جو پیسے تھے وہ دیئے تو وہ پیسوں کی طرف دیکھ رہا تھا اور میں ان پیسوں پر چھپی ہوئی تصویر کی طرف جو فرماتے تھے کہ یہاں ہر شہری یکساں حقوق اور سہولیات کا حقدار ہوگا کوئی تفریق نہیں ہوگی ریاست اور شہری کا رشتہ مضبوط ترین ہوگا اور کسی کو بھی یتیمی کا احساس تک نہیں ہوگا۔