خلافت اور بادشاہت میں‘ بس یہی فرق تھا کہ خلفاء حکومت اور ریاست کو اپنے کندھوں پر بھاری بوجھ خیال کرتے اور جوابدہی انہیں رات کو سونے اور دن کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا‘ دریائے فرات کے کنارے کتا بھوک سے مر جائے تو مدینہ میں بیٹھے عمر فاروقؓ اس کتے کی بھوک پر خدا کے سامنے جوابدہ ہو ں‘گے۔ سنتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے پوچھا سلمان یہ بتائو کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ؟حضرت سلمان فارسیؓ نے الٹا انہی سے پوچھا کہ اے عمر فاروقؓ آپ بتائیے کہ ’’بیت المال کو آپ والد کا مال سمجھتے ہیں یا امت کی ملکیت‘ امیر المومنین عمر فاروقؓ نے جواب دیا‘ بیت المال ‘ امت کی ملکیت ہے جس کی حفاظت اور منصفانہ استعمال کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے‘ سلمان فارسیؓ سے فرمایا یقینا آپ خلیفہ ہیں بادشاہ نہیں‘ حکومت‘ انتظامیہ ‘ عدلیہ ‘ دفاعی ادارے انہیں کچھ فرائض سونپے گئے ہیں کچھ ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں‘ جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری‘ حکومت و ریاست کے عہدے بڑی ذمہ داری کا کام ہے‘ جوں جوں آپ اوپر جائیں آپ کی ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے‘ اگر ذمہ داری کا احساس ہو تو آپ کے اندر عجز‘ انکساری بڑھتی جاتی ہے اور جب ذمہ داری کی بجائے عہدے کو اپنا حق اور اختیار سمجھ لیا جائے تو یہیں سے معاشرے میں خرابی اور فساد شروع ہو جاتا ہے‘ پاکستان میں مختلف اداروں کے سربراہ اپنے حق اور اختیار میں پھنسے ہوئے ہیں‘ یورپ کی جمہوریت میں بادشاہ‘ وزیر اعظم‘ جج‘ جرنیل اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں‘ بس یہی فرق ہے جس پر اقبال نے کہا تھا: فردوس جو تیرا ہے ‘ کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے‘ فردوس کی مانند ریاست کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داریوں کو اپنا حق اور اختیار بنا لینے کی روش نے ساری کی ساری تیسری دنیا خصوصاً مسلمان ملکوں میں تباہی پھیلا رکھی ہے‘ پاکستان کی بربادی کی ایک جھلک‘ سب سے حساس اور ذمہ داری کے حامل محکمہ یعنی عدلیہ اور وہ بھی اعلیٰ ترین عدالتی تقرریوں کا احوال اور ذمہ داریاں اختیار میں بدل جانے کا نتیجہ جس کا راقم نے کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا۔غلام اسحق خان‘ صدر پاکستان تھے‘ سپریم کورٹ کے جج نسیم حسن شاہ قائم مقام یا عبوری چیف جسٹس نامزد کیا گیا تھا‘ چیف جسٹس کی نامزدگی صدر مملکت کے حکم سے ہوا کرتی تھی، یونیورسٹی کے زمانے سے ہمارے دوست آج کل سینئر ترین وکلاء میں شامل ہیں ‘ وہ میرے پاس ایم این اے ہوسٹل تشریف لائے اور کہا کہ صدر مملکت سے کہیے کہ وہ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کو جو اس وقت کا قائمقام چیف جج ہیں انہیں کنفرم کر کے مستقل چیف جج تعینات کر دیں اور صدر صاحب کو یقین دہانی کروا دیں کہ وہ چیف جسٹس کے طور پر صدر مملکت کے ہر حکم کی پاس داری کریں گے‘ راقم الحروف اپنے دیرینہ دوست کی سفارش کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا مگر جسٹس نسیم حسن شاہ(جو اب دنیا میں نہیں رہے) کی شہرت مستحکم شخصیت کی نہیں تھی کہ ان کے وعدے پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر لیا جائے‘ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں بظاہر پھانسی کی سزا کا فیصلہ ان کے قلم سے لکھا گیا‘ بظاہر انہوں نے لکھا لیکن حقیقت کچھ اور تھی جو ضیاء الحق کے علم میں آ گئی اور وہ یہ کہ نسیم حسن شاہ صاحب نے بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ ساز باز کر لی تھی بھاری رقم کے عوض۔ ضیاء الحق نے ثبوت سمیت جج صاحب کو اسی طرح اٹھوا لیا تھا۔ چنانچہ آرمی ہائوس میں شاہ صاحب سے سادہ کاغذات پر دستخط کروا لئے گئے تھے اور فیصلہ کسی دوسرے جج صاحب نے لکھا تھا۔ اس واقعہ کا علم ہونے کے بعد ممکن نہیں تھا کہ اس بھاری ذمہ داری کو اپنے سر لیا جاتا چنانچہ اپنے دوست سے بصد ادب معذرت کر لی‘ شنید ہے کہ بعد میں غلام اسحق خاں کے دیرینہ دوست روئیداد خاں کی سفارش پر انہیں مستقل چیف جسٹس بنا دیا گیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت آئین کے آرٹیکل 2-58ٰ بی کے تحت برطرف کر دی گئی اور حکومت کی برطرفی کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا‘ اس سے پہلے محمد خاں جونیجو اور بے نظیر بھٹو کی حکومتیں اسی قانون کے تحت برطرف ہونے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد ہو چکا تھا۔مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا‘ ایک دن گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین کا پیغام ملا کہ راولپنڈی گورنر انیکسی میں وہ منتظر ہیں۔جس قدر جلدی ممکن ہو وہاں پہنچ جائوں‘ گورنر انیکسی میں عجب سماں تھا‘ چوہدری الطاف سپریم کورٹ کے ججز کی سفارشات اور مطالبات کی ایک طویل فہرست لئے بیٹھے تھے۔ ایک طرف کونے میں ان کے بھائی چودھری افتخار تشریف فرما تھے‘ فہرست میں مختلف جج صاحبان کے مطالبات میں مختلف ہائی کورٹ خصوصاً پنجاب ہائی کورٹ میں نئے ججوں کی بھرتی‘ کچھ تقرر اور تبادلے‘ ان میں جسٹس نسیم حسن شاہ کے ہم زلف جسٹس سیال کا مسئلہ بھی تھا‘جسٹس سیال ریٹائر ہو چکے تھے۔ اسمبلی کی بحالی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آنے کے بعد چیف جسٹس کے مطالبے پر انہیں ایک سال کے لئے صدر مملکت کی طرف سے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کر دیا گیا تھا‘ اب زیر بحث مقدمے کے فیصلے میں چند دن ہی باقی تھے جب مقدمہ سننے والے ججوں کی طرف سے دونوں پارٹیوں پر دبائو بڑھا دیا گیا تھا‘ سیال صاحب ایڈہاک جج بنائے جا چکے تھے۔ اب نسیم حسن شاہ صاحب کا تازہ ترین مطالبہ تھا کہ جسٹس سیال کو فوری طور پر کنفرم کر کے مستقل جج بنایا جائے‘ ایک مطالبہ جسٹس رفیق تارڑ کی طرف سے ان کے کوئی عزیز تھے غالباً داماد وہ پنجاب پولیس میں ایس ایس پی تھے اور ان دنوں یو اے ای ایمبیسی میں تعینات تھے‘ انہیں واپس پنجاب میں ان کے مطلوبہ ضلع میں تقرر کرنا تھا‘ سب کام جلدی جلدی نمٹائے جا رہے تھے‘ متعلقہ محکموں کے سیکرٹری وہیں طلب کر لئے گئے تھے‘زیادہ زور پنجاب میں تقرریوں اور تبادلوں اور نئے ہائیکورٹ ججوں کی بھرتیوں کا تھا‘ انہی بھرتیوں میں چوہدری الطاف حسین نے اپنے بھائی افتخار چودھری کو پنجاب ہائیکورٹ میں جج بنوایا تھا‘ جو بعد میں نوازشریف مخالف ہونے کی وجہ سے مشرف کے زمانہ اقتدار میں طویل مدت تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ صدر ممکت کی طرف سے ان کے دوست متحرک تھے‘ پنجاب میں چودھری الطاف‘ منظور وٹو اور بہت سے دوست ہمدرد‘ دوسری طرف صوبہ سرحد میں میر افضل‘ روئیداد خاں و غیرہم۔ دوسری پارٹی کو زیادہ زحمت نہیں کرنا تھی‘انہیں مختلف نوعیت کے گوناگوں مطالبہ کا سامنا نہیں تھا‘ بے نظیر بھٹو کے بقول ’’چمک‘‘ دکھانا تھی‘ وہ حسب توفیق دکھائی جاتی رہی‘ چمک نے بہتوں کی آنکھیں چندھیا دیں‘ چندھیائی آنکھیں دیکھ ہی کیا سکتی ہیں چمک کے سوا۔سید نسیم حسن شاہ اور بعض دیگر احباب بھی دہرے فائدے میں رہے‘ سیال صاحب کو سپریم کورٹ کا مستقل جج بنوانے سے لے کر تقرر‘ تبادلے‘ سرکاری مراعات تو غنیمت میں ہاتھ لگے ۔بے نظیر چمک چمک کہتے بجھ گئیں۔