پاکستان میں غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد کو 31اکتوبر 2023ء تک وطن عزیز سے ازخود نکل جانے کا کہا گیا۔ بعض افراد چلے گئے جو نہیں گئے ان کا یکم نومبر سے ریاستی سہولت سے اپنے اپنے وطن جانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ دیر آید درست آید۔ یہ سب غیر قانونی مقیم افراد فقط افغانی نہیں یہ مغربی ممالک کے باشندے بھی ہیں۔آصف زرداری کے دور صدارت میں بلیک واٹر Black waterکے کئی ہزار پیشہ ور قاتل کمانڈوز کو ریاستی سہولت کے ساتھ بغیر ویزہ اور پاسپورٹ سٹامپunstampedپاکستان میں بسایا گیا۔میمو گیٹ سکینڈل مذکورہ تناظر میں تھا۔ کئی عالمی NGOسے وابستہ افراد بھی بس رہے تھے جبکہ بہت سے افراد کو نادرا شناختی کارڈ بھی فراہم کر دیا گیا تھا۔ بے شک پاکستان ایک غریب ‘ مفلوک الحال‘ سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ملک ہے، مغرب کے امیر اور نام نہاد تہذیب و سہولت یافتہ افراد کا پاکستان میں غیر قانونی مقیم ہونا ناقابل فہم بات ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں لوگ بیروزگاری اور غربت کے باعث قسمت آزمائی کے لئے مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور بعض وہیں مارے بھی جاتے ہیں۔افغانستان میں روسی تسلط (27دسمبر 1979ء ) اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکی و اتحادی ممالک بشمول بھارت کے لئے حملہ کی سپلائی لائن فراہم کرنے کے بعد افغان مہاجرین کا دربدر ہو کر پاکستان آنا فطری امر تھا اور ہے کیونکہ پاک افغان باشندوں کا تعلق اٹوٹ انگ کی طرح ہے۔ قائد اعظم نے (3دسمبر 1947ئ) کو بجا فرمایا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان کی مسلم مملکت کے لئے دوستی کے گہرے اور شدید جذبات رکھتے ہیں۔ افغانستان ہمارا سب سے پہلا اور قریبی پڑوسی ہے جس سے پاکستان کے لوگ کئی صدیوں سے اور کئی نسلوں سے بے شمار مذہبی ثقافتی اور معاشرتی روابط رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے افغان قوم کے جذبہ حریت اور بلندی کردار کو ہمیشہ استحسان اور قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے‘‘ یاد رہے کہ مغل دور میں افغانستان کے کئی شہر اور علاقے ہندوستان کا حصہ رہے ہیں جبکہ لاہور دنیا کے عظیم جرنیل حافظ محمود غزنوی کی سلطنت کا حصہ رہا اور تقریبا دو سو سال لاہور برصغیر کی ہندی غزنوی حکومت کا دارالحکومت رہا ہے۔ نیز ہندوستان یعنی برصغیر پاک و ہند کے عظیم مسلم جرنیل اور صوفیاء کا تعلق بھی افغان سرزمین سے تھا۔جدید افغانستان کی تحریک دلچسپ اور ماضی سے مختلف ہے۔ برطانوی ہندی سامراج کے دور میں افغانستان عالمی قوتوں روس اور برطانیہ کے درمیان بفر زون یا ریاست (buffer zone or state)کا کردار ادا کرتا رہا۔ افغان عوام نے برطانوی ہندی سرکار کے ہر فوجی حملے کے خلاف کامیاب مزاحمت کی جبکہ یہی کیفیت روس اور امریکہ و اتحادی حملہ آوروں کے ساتھ رہی۔ لہٰذا دونوں مذکورہ عالمی طاقتوں نے کابل فتح کرنے کے بجائے زیر اثر رکھنا پسند کیا لہٰذا افغانی ’’باما شراب خوردو بازاید نماز کرد‘‘ کا فن سیکھ گئے جب روس نے 15فروری 1989ء کو اپنا فوجی انخلاء مکمل کیا ۔مگر اس سے قبل امریکہ نے روس کے ساتھ سرد جنگ ختم کی اور دونوں عالمی طاقتوں نے کابل کو زیر کرنے اور زیر اثر رکھنے کے لئے بقول جنرل حمید گل پاکستان کو ٹھکانہ اور افغانستان کو نشانہ بنایا۔ دریں صورت امریکہ‘ روس‘ بھارت ‘ اسرائیل ‘ یورپی یونین کے عالمی اتحادی ممالک کی جملہ سرگرمیوں کا مرکز پاکستان رہا اور امریکہ نے اپنی فوجی و جمہوری ہمنوا حکومتوں سے غیر قانونی اور غیر آئینی سہولتیں حاصل کیں اور اس طرح پاکستان میں غیر قانونی افغانی‘ بھارتی، مغربی و عالمی غیر قانونی مقیم افراد کی افراط ہو گئی اور یہی غیر قانونی مقیم غیر ملکی پاکستان کی فوجی و جمہوری مقتدر اشرافیہ کو ہمنوا بنائے رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ اس دوران اگر کوئی فوجی یا جمہوری سربراہ امریکی و عالمی یکجہتی کی پالیسی سے انحراف کا سوچتا تو تخریب کاری‘ دہشت گردی ‘ ٹارگٹ کلنگ‘ افواج پاکستان پر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کا مسکن پاکستان اور مقصود افغانستان ہے ۔عالمی طاقتوں کا مقصود افغانستان میں ہمنوا حکومت کے استحکام کے لئے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان میں عالمی طاقتوں بشمول بھارت اور اسرائیل کو قانونی راہداری وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے جنیوا معاہدہ 1988ء نے فراہم کی تھی جو آج تنآور اکاس بیل بن کر پاکستان کو کھا رہی ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کا غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد کا دیس نکالا پالیسی اہم اور جراتمندانہ اقدام ہے۔ یہ بھڑوں کا چھتہ ہے جس میں فوجی سربراہ نے ہاتھ ڈالا ہے پاکستان میں ہمہ نوعیت استحکام مذکورہ مسئلہ کو حل کئے بغیر ناممکن تھا اور ہے۔پاکستان میں مقتدر اشرافیہ کی دوہری شہریت کا مسئلہ بھی مذکورہ تناظر میں جنم لیتا رہا ہے اور سول ملٹری مسائل کا کھرا یعنی نشان بھی عالمی طاقتوں اور اداروں کے اہداف سے جنم لیتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد کے انخلاء کی پرعزم پالیسی اپنائی گئی تو امریکہ بہادر کو اعلانیہ طور پر فوجی سربراہ سے بات کرنا پڑی اور بعدازاں امریکہ و برطانیہ نے اپنے محبوب نام نہاد افغانی غیر مقیم باشندوں کو امریکی و برطانوی شہریت دینے کے لئے لندن اور واشنگٹن لے جانے کے لئے چارٹرڈ جہازوں کی پروازوں کا پل باندھ لیا۔ یاد رہے کہ سربجیت سنگھ ہو یا کلبھوشن ‘ یہ سب بھارتی باشندے نام اور بھیس بدل کر پاکستان میں تخریبی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے سرغنہ رہے ہیں۔ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کی حقیقت بھی سب کو آشکار ہے۔ وہ افغانستان سے جب چاہتا ‘ پاکستان آتا اور قتل و غارت کے ساتھ تخریبی سرگرمیاں کر کے واپس چلا جاتا۔ عالمی طاقتوں اور اداروں کا پاکستان یا افغانستان سے انخلا نرم پالیسی سے ناممکن ہے۔اس کے لئے پرعزم تسلسل کی ضرورت ہے۔ موجودہ فوجی سربراہ نے اس پالیسی کا آغاز کیا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ انجام بخیر ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان کی طرح افغانستان کی حکومت بھی عالمی طاقتوں کی ملی جلی کاشت ہے۔ افغان حکومت سے پاکستان کی کھلی جنگ یا غیر دانشمندانہ کشیدگی دونوں ممالک کے لئے مہلک ہو گی اور اس طرح عالمی طاقتوں بشمول بھارت ‘ برطانیہ ‘امریکہ و اسرائیل کو اپنا ہدف حاصل کرنے میں سہولت ہو گی ۔کہا جاتا ہے کہ بڑوں یعنی ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کچلتی ہے۔ لہٰذا مظلوم‘ مجبور غریب اور بے سہارا افغان عوام پاکستانی عوام و خواص کی طرح پس رہے ہیں۔انہیں بھی جوش سے زیادہ ہوش کے ساتھ صبر شکر ‘تحمل‘ برد باری اور دور اندیشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ فی الحقیقت غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد کا انخلا پاک افغان عوام اور حکومتوں کے درمیان پھپھے کٹنی کا کردار ادا کرنے والوں کے لئے کاری ضرب ہے۔کجامی نماید کجامی زند۔