اچھا خاصہ کالم سوچ لیا تھا، بس لکھنے کی دیر رہ گئی تھی، زندگی بھر لکھنے کی مشق کی ہے، سوچنے میں وقت لگتا ہے لکھنے میں نہیں مگر عادتاً ٹی وی لگا لیا، ساہیوال میں آٹے کی تقسیم پر بھگدڑ مچی، دو خواتین موقع پر جاں بحق اور پینتالیس زخمی ہو گئیں۔ سارا کالم ذہن سے محو ہو گیا اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آٹے کے حصول میں جان گنوانے والے مرد و زن نے دل و دماغ کو جکڑ لیا۔ ایک زرعی ریاست نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری، صرف دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے غریب و مفلس شہریوں کو مفت آٹا دینے کی حامی بھری مگر کوئی ایسا منصوبہ بنانے سے قاصر رہی جو ان غریب و فاقہ کش شہریوں کو باعزت طریقے سے آٹا فراہم کرنے میں مدد گار ہو، ایک بوری آٹے کے لیے کسی کو جان کی بازی نہ لگانی پڑے۔ اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ پنجابی کا شعر ذہن کے پردہ سکرین پر ابھرا ع توں کی جانیں یار امیرا، روٹی بندہ کھا جاندی اے شعر کیا یاد آیا شاکر شجاع آبادی، شمسی مینائی اور نظیر اکبر آبادی سمیت کئی شعرا کے یادگار کلام نے دیارِ دل پر دستک دی۔جو نذر قارئین ہے۔ سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا عالم بڑے بڑے ہیں، تو لیڈر گلی گلی بارش ہے افسروں کی، تو دفتر گلی گلی شاعر، ادیب، اور سخنور گلی گلی سقراط دربدر ہیں، سکندر گلی گلی سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا حاکم ہیں ایسے دیش کا قانون توڑ دیں رشوت ملے تو قتل کے مجرم بھی چھوڑ دیں نگراں، جو ملزمان کی آنکھیں بھی پھوڑ دیں سرجن ہیں ایسے، پیٹ میں اوزار چھوڑ دیں سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا ہر قسم کی جدید عمارت ہمارے پاس ہر ایک پردہ دار تجارت ہمارے پاس اپنوں کو لوٹنے کی جسارت ہمارے پاس کھیلوں میں ہارنے کی مہارت ہمارے پاس سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا ہر کام چل رہا ہے یہاں پر بیان سے سرکار کے ستون تو رہتے ہیں شان سے قرضہ تو مل رہا ہے ہمیں ہر دْکان سے خیرات آ رہی ہے بڑی آن بان سے سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا وعدہ لپیٹ لو، لنگوٹی نہیں تو کیا یہ نور کا نہیں تو سیاہی کا طور ہے ہر جھوٹ ہر گناہ کا ہم کو شعور ہے دنیا کے اور دیسوں کو دھن پہ غرور ہے فنِ گداگری پر ہمیں بھی عبور ہے سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا جنتا سے کہہ دو شور مچانا فضول ہے تکلیف کا بیان سنانا فضول ہے شاہانِ قوم کو تو ستانا فضول ہے سوتے ہیں سْکھ کی نیند جگانا فضول ہے سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا  وعدہ لپیٹ لو جو لنگوٹی نہیں تو کیا (شمسی مینائی) فکر دا سج ابھردا ہئے سوچیندیں شام تھی ویندی خیالیں وچ سکون اجکل گولیندیں شام تھی ویندی انھاں دے بال ساری رات روندین، بْھک توں سْمدے نئی جنھاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندیں شام تھی ویندی غریباں دی دعا یارب خبر نہیں کن کریندا ہیں سدا ہنجوؤاں دی تسبیح کْوں پھریندیں شام تھی ویندی کڈیں تاں دْکھ وی ٹل ویسن کڈیں تاں سُکھ دے ساھ ولسن پْلا خالی خیالاں دے، پکیندیں شام تھی ویندی میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کرڈے جو روٹی رات دی پوری کریندیں شام تھی ویندی میں شاکر بْھک دا ماریا ہاں مگر حاتم تْوں گھٹ کائینی قلم خیرات میڈی ہے، چلیندیں شام تھی ویندی (شاکر شجاع آبادی) جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام پہلے انہی مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گھل گئے گلزار پھولے آنکھوں میں اور عیش تل گئے دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے ڈھل گئے چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کھل گئے یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں روٹی سے ناچے پیادہ قواعد دکھا دکھا اسوار ناچے گھوڑے کو کاوہ لگا لگا گھنگھرو کو باندھے پیک بھی پھرتا ہے ناچتا اور اس سوا جو غور سے دیکھا تو جا بہ جا سو سو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں (نظیر اکبر آبادی) گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب بیٹی مگر غریب کی فاقوں سے مر گئی ………… زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائیگی بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائیگی