گزشتہ سے تاثر ملا کہ آر ایس ایس اور شیو سینا کے متعلق کچھ کچھ حقائق گڈ مڈ ہوگئے۔ آر ایس ایس کا یوں تو بی جے پی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ دونوں الگ الگ تنظیمیں ہیں۔ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھگونت اور شیو سینا کے اْدھو ٹھاکرے ہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ بی جے پی نے آر ایس ایس کی سیاسی کوکھ سے جنم لیا جبکہ شیو سینا نے آر ایس ایس کی نظریاتی کوکھ سے انگڑائی لی۔ بال ٹھاکرے نے آر ایس ایس کے نظریے ’ہندوتوا‘ کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اپنا کر مہاراشٹرا میں اپنی سیاسی پہچان بنائی اور پورے مہاراشٹرا کو اْسی طرز پر یرغمال بنا لیا ۔دراصل گزشتہ کئی ماہ سے شیو سینا کے اندر چلتی آرہی سیاسی مخاصمت کے نتیجے میں بھارتی عدالت نے ایکناتھ شندے کے دھڑے کو ’اصلی شیو سینا‘ تسلیم کرتے ہوئے شیو سینا کا نام اور تیر کمان کا نشان اْنہیں اِلاٹ کردیے ہیں۔ یوں بال ٹھاکرے کی بنائی گئی شیو سینا اْن کی بیٹے اْدھو ٹھاکرے کی بجائے بال ٹھاکرے کے ’سینک‘ اور کچھ عرصہ قبل خود اْدھو ٹھاکرے کے باعتماد ساتھی ایکناتھ شندے کو چلی گئی ہے۔ اْدھو ٹھاکرے کو غصہ دراصل بھارتی ہوم منسٹر اور مودی کے قریبی ساتھی امیت شاہ پر ہے۔ اْن کے بقول شیو سینا میں دراڑ مودی کے کہنے پر امیت شاہ نے ڈالی ہے اور شیو سینا کو توڑ دیا ہے۔ شیو سینا چونکہ آر ایس ایس کے ’ہندوتوا‘ کے نظریے کی پیروی کرتی ہے۔ اِس لئے یہاں آر ایس ایس بارے کچھ حقائق سے پردہ اٹھانا زیادہ موزوں ہوگا۔ اس لئے معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’دی آر ایس ایس: آ مینیس ٹو انڈیا‘ پر لکھے گئے جنابِ افتخار گیلانی کے مضمون کا حوالہ دے کر کچھ مزید حقائق پہ روشنی ڈالنا زیادہ اچھا ہوگا۔’’گو کہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ ہنگامی صورت حا ل میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20 لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو جمع کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے۔ کسی بھی فوج کو صف بندی اور تیاری میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں مگر موہن یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ گو کہ بی جے پی کے لیڈران روز مرہ کے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقتور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس کا ہی نمائندہ ہوتا ہے۔آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ آر ایس ایس میں شامل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بین کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس لئے آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ غیر شادی شدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ اے جی نورانی نے درست لکھا کہ آر ایس ایس کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے۔ سیاست کے میدان میں براہ راست کودنے کے بجائے اس نے 1951میں جن سنگھ اور پھر 1980میں بی جے پی تشکیل دی۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماؤلی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ اڈوانی کا قصور تھا کہ 2005ء میں کراچی میں اس نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔نورانی کے مطابق آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے(دوسرے لفظوں میں غنڈہ گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لییبھارتیہ مزدور سنگھ، دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔آج کے دن اس کی کل شاکھاؤں کی تعداد84877ہے جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہے ہیں۔اس وقت بی جے پی کے قومی سیکرٹری جنرل اور بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، او ربھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں۔اْن کے مطابق سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ؤں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔آرایس ایس کا فلسفہ یہی ہے کہ مسلمان ’اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے‘ کی بجائے ’اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے‘ کہنا شروع کردیں تو آرایس ایس مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ یہ بظاہر تو سادہ سی بات لگتی ہے مگر ’’ہی‘‘ کو ’’بھی‘‘ کہنے یا مان لینے سے کسی بھی مسلمان کا ایمان قائم نہ رہ سکے گا۔ اِس لئے ضروری ہے کہ آر ایس ایس کو محض برا کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ اِس کے لئے مسلمان علماء کو میدان ِ عمل میں آنا ہوگا، آر ایس ایس کے فلسفے کا توڑ حقائق اور دلیل سے دینا ہوگا وگرنہ پوری سچائی یہی ہے کہ کئی مسلمان ممالک کے لبرل آر ایس ایس کے فلسفے کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے مودی کے متعلق شیو سینا کے سربراہ کے انکشافات پر عالمی برادری کی خاموشی بھار ت میں جاری مسلمانوں کے خلاف جرائم کی پشت پناہی سے کم نہ ہوگی۔