سقوط ڈھاکہ 16دسمبر 1971ء امت مسلمہ اور پاک و ہند کے مسلمانوں کے ماتھے کا کلنک ہے۔ یہ کلنک کب اترے گا کیونکہ سقوط ڈھاکہ ہندو مسلم کشمکش کا حتمی فیصلہ یا فیصلہ کن مرحلہ نہیں ہے۔ فیصلہ ہونا باقی ہے مگر ہر دم ‘ پردم اور تیار رہنا ضروری ہے۔ مسلمان قوم کا بت پرست ہندو سے شکست یا ہزیمت اٹھانا تاریخ کا المیہ ہے۔ تاریخ میں ہندو راجہ پرتھوی راج نے حافظ شہاب الدین غوری کی واپس لوٹتی فاتحانہ فوج کی پشت پر حملہ 1191ء میں کیا۔ یہ پہلی جنگ ترائن تھی مگر محمد غوری نے 1192ء یعنی اگلے سال پرتھوی راج سے جنگ ترائن دوم میں حساب چکا دیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کا حساب چکانا التوا اور تاخیر کا شکار ہے۔ ایوب کے مارشل لاء نے جبر پیدا کیا، جو جدائی کا سبب بنا، قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ مشرقی پاکستان میں زبردستی تھونپا‘ جس سے عوام وخواص میں تلخی پیدا ہوئی۔ ون یونٹ اور مساویانہ نمائندگی بھی کشیدگی کا سبب رہا کیونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کی جملہ آبادی سے زیادہ تھی۔نیز پاکستان کی سول ملٹری بیورو کریسی نے مشرقی پاکستان کا حصہ سمجھنے کی بجائے استعماری کالونی سمجھا اور اپنے فکرو عمل سے بنگالیوں کو کالے انگریز حکمران کا تصور دیا۔القصہ اس جیسے کئی مفروضے مغالطے اور الزامات حقیقت سے نآشنائی کا اظہار کرتے ہیں۔سقوط ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کی وفاق سے علیحدگی کے حقیقی اسباب اور وجوہات تاریخی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔تاریخ بنگال کے جانے بغیر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تفہیم مشکل ہے بنگالی مسلمان نے آل انڈیا مسلم لیگ اور قیام پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بنگال پہلی بار شہاب الدین غوری کے کمانڈر بختیار خلجی 1202ء میں فتح کیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے تربیت یافتہ عقیدت مندوں نے بنگال میں اسلام کی شمع روشن کی اور یہی وہ شمع اسلام تھی جس نے بھارتی برہمن ‘ ہندو مسلح انتہا پسند مکتی باہنی عالمی طاقتوں روس امریکہ اسرائیل برطانیہ یورپ اور اداروں مثلاً اقوام متحدہ وغیرہ کے علاوہ اپنوں کی غدارانہ سازش کے باوجود ‘ ہندو بھارت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی دہلی سے الحاق کے لئے کی تھی مگر غیور بنگالی مسلمان نے بنگلہ دیش کی شکل میں اپنا جداگانہ اسلامی تشخص بحال رکھا۔کرنل فاروق شہید جنہوں نے ہندو بھارت کے حلیف شیخ مجیب الرحمن کو مارا اور بنگالی نوجوانوں کو بھارتی مسلح تنظیم مکتی باہنی کے خلاف مزاحمت کے لئے تیار کیا۔ جنرل ارشاد اور جنرل ضیاء الرحمن نے اپنے ادوار حکومت میں سرکاری طور پر پاکستان سے نزدیگی اور بھارت سے دوری کی پالیسی اپنائی ۔کرنل فاروق شہید نے راقم اور جنید غزنوی کی موجودگی میں استاد گرامی پروفیسر محمد منور کو ہلٹن حالیہ آواری ہوٹل لاہور میں بتایا کہ وہ بنگلہ دیش کا ازسرنو مغربی پاکستان سے الحاق چاہتے تھے اور شیخ مجیب الرحمن کو زندہ گرفتار کرنے غداری کا مقدمہ چلانا تھا مگر شیخ مجیب الرحمن اپنے بیٹوں اور ساتھیوں سمیت مزاحمتی مقابلے میں مارا گیا۔ کرنل فاروق شہید کا کہنا تھا کہ مغربی پاکستان میں بھی ’’غدار‘‘ کو غداری کی سزا ملنا چاہیے تھی ‘ نہ کہ قتل عمد کے لئے اعانت جرم کے تحریری حکمنامے پر تعزیزی کی جاتی۔ سقوط ڈھاکہ کے غدار کرداروں‘ کا حساب ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ بنگالی مسلمان کی مغربی پاکستان کی مقتدر اشرافیہ سے ناراضی تھی۔ علیحدگی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت 16دسمبر 1971ء پاکستانی بیورو کریٹ مسعود مفتی نے اپنے مشاہدات و تاثرات پر مبنی کتابچہ یا روزنامچہ ’’چہرے‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جس تقریب میں جنرل اے۔ کے نیازی A-K Niazyنے بھارتی جنرل اروڑہ سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے تو تمام بنگالیوں کے چہرے اتر گئے اور وہ برملا کہتے پھرتے تھے کہ ہم یہ سب کچھ نہیں چاہتے تھے۔ مذکورہ بیانیہ کی تصدیق میں کئی دیگر لکھاریوں نے بھی لکھا ہے۔ حتیٰ کہ مشہور کانگرسی منحرف قوم پرست سبھاش چندر بوس کی پوتی شرمیلا بوس نے تحقیق کے ساتھ اپنی کتاب میں اعداد و شمار اور 1971کی بنگال جنگ کی یادیں میں تحریر کیا ہے کہ پاک فوج کی بنگالی عوام کے ساتھ مظالم کی کہانیاں من گھڑت اور فرضی ہیں۔ نیز 92ہزار فوجی قیدیوں میں اکثریت مغربی پاکستان سے وابستہ عام افراد کی تھی جن میں چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے راقم کے بزرگ مگر مخیر صنعت کار ایس ایم اشفاق اور شیخ ریاض بھی شامل تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے 3جون 1947ء کو تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا مشرقی و مغربی متحدہ بنگال کی قومی اسمبلی نے 20جون 1947ء مغربی پاکستان سے الحاق کی قرار داد منظور کی۔ بعدازاں انگریز سرکار نے ہندو مہا سبھائیوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ سازباز کر کے اراکین اسمبلی کی کارنر میٹنگ کے تحت ہندو اکثریتی علاقہ مغربی کو علیحدہ کرنے کی مہم چلائی جو کامیاب بنائی گئی۔ یاد رہے کہ اس وقت متحدہ بنگال کے ڈی سی عزیز احمد قادیانی تھے جنہوں نے مغربی بنگال کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا اور بعدازاں مشرقی پاکستان نے چیف سیکرٹری بنا دیے گئے مزید برآں عزیز احمد قادیانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر ایوب دور میں محکمہ خارجہ کے سیکرٹری جنرل اور بھٹو کے دور میں وزیر خارجہ رہے۔1971کے الیکشن کے وقت ون یونٹ اور مساوی نمائندگی کا اصول منسوخ کر دیا گیا تھا اور الیکشن 1971ء میں شیخ مجیب نے مجموعی طور پر 50فیصد سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی اور بھٹو نے 5صوبوں میں سے فقط پنجاب میں اکثریت حاصل کی مگر صدر آغا جنرل یحییٰ خاں کے ساتھ مل کر شیخ مجیب کی متحدہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے لئے روڑے اٹکائے اور اِدھر ہم اُدھر تم‘دو وزیر اعظم‘ دو دارالحکومت ‘ دو کرنسی کا نعرہ لگایا اور برملا کہا کہ جو مشرقی پاکستان جائے گا‘ یکطرفہ ٹکٹ کٹائے۔ واپسی کا راستہ نہیں ہے۔ نیز مشرقی پاکستان کے کامیاب امیدواروں اور عوام کے خلاف جنرل ٹکا المعروف ٹوکا خان کی سربراہی میں فوجی آپریشن کرایا گیا، جو جلتی آگ میں تیل ڈالنے کے مترادف تھا۔ فی الحقیقت سقوط ڈھاکہ میں اپنے اور غیر‘ سول ملٹری اشرایہ کا اہم کردار رہا ہے جبکہ مذکورہ بڑوں کی سازش میں مشرقی و مغربی پاکستان کے عوام اور پاک افواج کے ساتھ زیادتی‘ دھوکہ اور فریب دیا گیا۔ عوامی صدمہ اور سانحہ کے اثرات یہ تھے کہ یوسف ظفر جسے حساس محب دین و وطن شاعر ادیب محقق ‘مصنف ‘ صحافی ہفتہ دس دن میں وفات پا گئے اور استاد گرامی پروفیسر محمد منور نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو بایں شعر بیان کیا: ہے زخم جگر نقشۂ بنگال سوز کچھ لے تو چلے داورِ محشر کیلئے ہم