میں نے اسٹیرنگ وٖغیرہ چھوڑ دیا ۔ کار کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا حالانکہ اب میرا پیر ایکسلیٹر پر نہیں تھا ۔ بانو ہی نے اپنے ریموٹ سے کار کی رفتار میں اضافہ کیا تھا ۔ ’’ ان لوگوں نے بھی اپنی رفتار اور بڑھائی ہے ۔ ‘‘ بانو نے بتایا ۔ میں خود بھی ان کاروں کی رفتار میں مزید اضافہ دیکھ رہی تھی ۔ میرے جسم میں سنسنی پھیل گئی ۔ بانو کا شبہہ یقینا درست تھا ۔ پھر جب میری کار کی رفتار میں بہ تدریج کمی آنے لگی تو میں نے بے اختیار کہا ۔ ’’ آپ رفتار کم کررہی ہیں ؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اب دیکھنا ہے کہ وہ لوگ چاہتے کیا ہیں !‘‘ ’’ کیا میری کار کے ٹائر ایسے ہیں کہ ان پر گولی چلائی جائے تو وہ .....‘‘ ’’ نہیں پھٹیں گے ۔‘‘ بانو نے میری بات کاٹتے ہوئے جواب دیا ۔ میں اعصابی تنائو کے ساتھ دیکھتی رہی کہ چاروں کاریں تیزی سے میرے قریب آئیں ، ان میں سے ایک آگے نکل گئی ‘ ایک میرے دائیں اور ایک میرے بائیں پہلو میں آگئی ۔ چوتھی کار میرے پیچھے رہی اور اس نے اپنی رفتار اتنی ہی کردی جتنی میری کار کی تھی ۔ ان لوگوں کو غالباً علم نہیں ہوگا کہ میری کار بلٹ پروف ہے لیکن کسی نے فائر نہیں کیا تھا ۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ لوگ مجھے زندہ پکڑ نا چاہتے تھے ‘مجھے اغواکرنا چاہتے تھے ۔ میرے آگے جو کار تھی ‘ وہ دفعتاً ایک جھٹکے سے رک گئی ۔ میری کار کا راستہ محدود ہوگیا ۔ دائیں بائیں جو کاریں موجود تھیں ‘ ان کی وجہ سے میری کار کسی طرف مڑ نہیں سکتی تھی ۔ بانو نے کہا ۔’’ میرا خیال ہے کہ تمھاری بیلٹ کسی ہوئی ہے !‘‘ ’’ جی ہاں بانو!‘‘ آگے کھڑی ہوئی کار ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر رکی تھی لیکن بانو سے دو مکالموں کے دوران میں فاصلہ اور کم ہوگیا۔ اس وقت یکایک میری کار کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ آگے کھڑی ہوئی کار سے دو آدمی اتر آئے تھے جو یقینا غیر ملکی تھے ۔ انھوں نے جب میری کار کو تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گئے کہ میں اپنی کار ان کی کار سے ٹکرا دینا چاہتی ہوں لیکن جو کچھ کرنا تھا ‘ وہ بانو کو کرنا تھا ۔ میں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ میری کار اس کار سے ٹکرائے گی ۔ ان دونوں غیر ملکیوں کو جب تصادم کا خیال آیا تو انھوں نے جلدی سے ریوالور نکال کر میری کار پر گولیاں برسانی شروع کردیں ۔ابتدامیں شاید انھوں نے ٹائر کو نشانہ بنایا ہوگا اور اس میں ناکام ہونے پر میری کار کے ونڈ اسکرین پر گولیاں چلائیں لیکن وہ بھی بے سود رہیں ۔ ’’ چوکس رہنا صدف!‘‘ بانو نے کہا ۔ میں ذہنی طور پر تصادم کے لیے تیار ہوچکی تھی لیکن تصادم نہیں ہوا ۔ سامنے رکی ہوئی کار سے کچھ ہی فاصلہ رہ گیا تھا کہ میری کار فضا میں اٹھی اور اس کار کے اوپر سے گزر کر سڑک پر اتر گئی اور اس طرح اتری جیسے طیارہ بہ تدریج لینڈ کرتا ہے اور مسافروں کو ذرا بھی جھٹکا نہیں لگتا ۔ مجھے بھی کوئی جھٹکا نہیں لگا تھا لیکن جب کار فضامیں اٹھی تھی تو ایک بار میرے دل کی دھڑکن ضرور تیز ہوگئی تھی ۔ کار کافی آگے نکل چکی تھی ۔ یہ وہاں سے فرار ہوجانے کا بہترین موقع تھا کیونکہ جو کاریں میرے دائیں بائیں اور عقب میں تھیں ‘ وہ خاصی پیچھے رہ گئی تھیں لیکن ہوا یہ کہ فرار کے لیے رفتار بڑھنے کی بہ جائے تیزی سے کم ہوئی اور ہلکے سے جھٹکے سے رک گئی ۔ میں نے فرنٹ مرر میں دیکھا کہ فائرنگ کرنے والے جلدی سے اپنی کار میں بیٹھ کر اسے حرکت میں لے آئے ۔ وہ تیزی سے میری کار کی طرف آنے لگی ۔ باقی تینوں کاریں بھی اسی رفتار سے اور اس انداز میں آرہی تھیں کہ میری کار کے دائیں بائیں رہیں ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا ‘ وہ بھی میرے لیے غیر متوقع تھا ۔ میری کار پیچھے جانے لگی اور اس کی رفتار میں بھی بہ تدریج اضافہ ہوا ۔ میں نے فرنٹ مرر میں دیکھنا چاہا کہ اب میرے پیچھے آنے والی کار کیا کرے گی لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا ۔ میری کار عقبی کے حصے میں ایک شیلڈاتنی اوپر تک تھی کہ مجھے عقبی منظر دکھائی نہیںدے سکتا تھا ۔ پچھلی کار والے سمجھ گئے ہوں گے کہ اب تصادم ہوگا اور جو شیلڈ میری کار کے عقبی حصے میں پیدا ہوئی تھی‘ وہ ان کی کار کو شدید نقصان پہنچائے گی ۔ میری کار پیچھے جاتے ہوئے بائیں جانب مڑنے لگی ۔ اس سے میں نے یہی سمجھا کہ تعاقب میں آنے والی کار تصادم سے بچنے کے لیے اس طرف مڑی ہوگی لہٰذا بانو نے بھی میری کار اس طرف موڑ دی تھی۔ اور پھر ایک دھماکا ہوا ۔ وہ دھماکا تصادم ہی کا تھا جس سے مجھے خاصا جھٹکا لگا ۔ کسی ہوئی بیلٹ کی وجہ سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ بس اتنا ہوا تھا کہ میں آگے جھکی تھی اور میرا سر ڈیش بورڈ سے چھو گیا تھا ۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ بھی ڈیش بورڈ پر رکھ دیے تھے ۔ اس دوران میں میری کار پر کوئی فائر نہیں ہوا تھا ۔ وہ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میری کار بلٹ پروف ہے لہٰذا ان کی گولیاں ضائع ہی ہوتیں ۔ میں نے باقی تینوں کاروں کو تیزی سے آگے جاتے دیکھا ۔ یقینا وہ میری کار سے اتنے خائف ہوگئے تھے کہ فرار ہوجانے ہی میں اپنی عافیت جانی تھی ۔ ’’ تماشا ختم ہوگیا ۔‘‘ بانو ہنسیں ۔’’ اب تم اتر کر دیکھوکہ اس کار کا کیا حشر ہوا ہے ۔ اس کا اگلا حصہ اتنا کچل گیا ہے کہ آگے بیٹھے ہوئے دونوں آدمی اس میں پھنس گئے ہیں ۔ ڈرائیونگ کرنے والا تو شاید مر ہی گیا ہو ۔ اسٹیرنگ وھیل اس کی پسلیوں میں گھس گیا ہے ۔ ‘‘ میں نے مرر میں دیکھا ۔ اب وہ شیلڈ نہیں تھی ۔ وہ کار دکھائی دینے لگی تھی ۔ اس کا حشر وہی ہوا تھا جو بانو نے بتایا تھا ۔ ’’ مرر میں دیکھ لیا میں نے بانو!‘‘ ’’ تو اب فون کرکے اپنے محکمے کے آدمیوں کو بلالو ۔ باقی کام وہ سنبھال لیں گے ۔ تم میرے گھر آجائو۔‘‘ بانو نے اتنا کہا اور اسکرین سے غائب ہوگئیں ۔ میں نے موبائل پر اپنے محکمے سے رابطہ کیا اور کچھ لوگوں کو ایمبولینس کے ساتھ وہاں بلایا ۔ ایمبولینس اس لیے ضروری تھی کہ دوسرا اگر مرا نہیں تھا تو بھی زخمی ضرور ہوا ہوگا لہٰذا ایمبولینس کی ضرورت تھی ۔ اس آدمی کی لاش بھی لے جانا تھی ۔ دو ایک کاریں قریب آکر رکیں ۔ وہ عام لوگ تھے جنہوں نے سمجھا تھا کہ وہاں کوئی حادثہ ہوا ہے ۔ وہ مجھ سے سوالات کرنے لگے تو میں نے انھیں اپنے محکمے کا کارڈ دکھا کر ان سے کہا کہ وہ مجھ سے کوئی سوال نہ کریں۔ پون گھنٹے میں میرے محکمے کے آدمی ایمبولینس کے ساتھ وہاں آگئے ۔ میں نے انھیں مختصر طور پر سمجھایا کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ اس کے بعد میں وہاں سے روانہ ہو کر بانو کے گھر پہنچ گئی ۔ ملازمائوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ مجھے روک ٹوک سکیں ۔ میں سیدھی بانو کی خواب گاہ میں ہی جاتی لیکن ایک ملازمہ نے مجھ سے کہا ۔ ’’ وہ اپنے بیڈ روم میں نہیں ‘ لیبارٹری میں ہیں ۔‘‘ ’’ لیبارٹری ؟‘‘ میں حیران ہوئی ۔ ’’ جی ہاں ‘آئیے ‘ مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ میں آپ کو وہاں پہنچادوں ۔‘‘ میں ملازمہ کی رہ بری میں ایک بڑے کمرے میں پہنچی اور حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگی ۔ وہ کسی سائنٹسٹ کی لیبارٹری معلوم ہورہی تھی۔ صدف پر حیرت کے کتنے دروازے کھلے؟ کل کے روزنامہ 92نیوزمیں پڑھیے! ٭٭