راستے سے میں نے کیپٹن عارف کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ میں فوراً آ رہی ہوں اس لیے ہاسپٹل کے داخلی دروازے پر میرے محکمے کے دو آدمی موجود تھے ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا ۔’’کیپٹن عارف نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ کو اس کمرے تک پہنچا دوں جہاں اس معاملے پر ڈسکشن ہورہا ہے ۔‘‘ ’’ ڈسکشن ۔ ‘‘میں نے تعجب سے کہا ۔’’کیسا ڈسکشن؟‘‘ ’’ یہ تو مجھے نہیں معلوم کمانڈر! ‘‘ ’’ چلو۔‘‘ مجھے اس کمرے تک پہنچا دیا گیا میں دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی جہاں ایک پولیس آفیسر اور کیپٹن عارف کے ساتھ دو آدمی اور تھے میں نے سمجھ لیا کہ انہی کا تعلق سفارت خانے سے تھا۔ عارف نے ان لوگوں سے میرا تعارف کرایا۔ میں نے سفارت کاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔’’ میرے علم میں آیا تھا کہ میری کار کے بارے میں انکوائری ہورہی ہے اس لیے.....‘‘ ایک سفارت کار نے تیزی سے میری بات کاٹی ۔’’ اس نمبر کی کار آپ کی ہے اور آپ کے محکمے کے لوگوں کو اس کا علم نہیں ؟یہ اس کے بارے میں انکوائری کرا رہے ہیں ؟‘‘ ’’اس کی وجہ ہے ۔‘‘میں نے کہا ۔’’ وہ میری نئی کار ہے اس کا علم ہوئے محکمے کے لوگوں کو نہیں تھا۔‘‘ ’’ بہر حال یہ تعجب کی بات ہے کہ آپ ایس آئی ایس کی آفیسر ہیں اور ایکسیڈنٹ کے بعد جائے واردات پر نہیں رکیں۔‘‘ ’’ میری کار سے کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا ‘مسٹر میری کار پر ایک ڈینٹ بھی نہیں ملے گا ۔‘‘پھر میں پولیس آفیسر سے مخاطب ہوئی ۔’’ باہر میری کار کھڑی ہے آپ اسے دیکھ لیں اور اس کے بعد ہی اپنی رپورٹ تیار کریں اور اگر آپ نے رپورٹ تیار کرلی ہو تو اس میں اضافہ کریں میری کار بالکل صحیح سلامت ہے ۔‘‘ پولیس آفیسر کھڑا ہوگیا۔ میں نے سفارت کاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔’’مجھے آپ کے اس ذریعے کا سراغ لگانا پڑے گا آخر اس معاملے میں مجھے، ایس آئی ایس کی ایک آفیسر کو پھنسانے کی کوشش کیوں کی گئی ۔‘‘ پولیس آفیسر جاتے جاتے رک کر میری بات سننے لگا تھا۔ سفارت کاروں نے میری بات پر توجہ نہیں دی اور ایک سفارت کار نے کیپٹن عارف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔’’ یہ فضول بات ہے کہ آپ ہمارے سفارت خانے کو برائن کی حالت کے بارے میں اطلاع دے دیں گے آپ غالباً یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہاں سے چلے جائیں لیکن ہم یہاں اس وقت تک رکیںس گے جب تک ڈاکٹرز برائن کا بیان لینے کی اجازت نہیں دے دیتے ۔‘‘ ’’ ضرور رُکیے۔‘‘ اب مجھے معلوم ہوا کہ زخمی ہونیوالے کا نام برائن تھا۔ میں نے سفارت کاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ مجھے اپنے آدمیوں سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے لوگوں کی کار کا اگلا حصہ تباہ ہوا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ انھوں نے ہی اپنی کار کسی گاڑی سے ٹکرا دی تھی؟‘‘ ’’ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے۔ ‘‘سفارت کار بولا۔ ’’ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری ہی گاڑی نے سامنے سے آکر ٹکر ماری ہو!‘‘ ’’ اگر ایسا ہوا ہوتا تو اس گاڑی کے ڈرائیور کا بھی وہی حشر ہونا چاہیے تھا جو آپ کے آدمیوں کا ہوا ہے۔‘‘ ’’ ضروری تو نہیں! وہ صرف زخمی بھی ہوسکتا ہے!‘‘ ’’ شدید زخمی۔ ‘‘میں نے زور دے کر کہا۔ ’’ اس صورت میں اسے کسی ہاسپٹل کا رخ کرنا چاہیے اور وہاں پولیس اس سے پوچھ گچھ ضرور کرے گی۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ گاڑی بھی بری طرح تباہ ہوئی ہوگی، اس قابل نہیں رہی ہوگی کہ چلائی جاسکے۔ اسے بھی جائے حادثہ پر ہونا چاہیے تھا۔‘‘ پولیس آفیسر فوراً بولا۔ ’’ بہت اہم پوائنٹ کی نشان دہی کی ہے آپ نے!‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا اور خشک لہجے میں بولی۔ ’’ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ جاکر میری کار دیکھ لیں۔‘‘ ’’ ہم بھی وہ کار دیکھنا چاہیں گے۔ ‘‘ایک سفارت کار نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ دوسرا بھی کھڑا ہوگیا۔ ’’ ضرور۔ ‘‘میں نے اطمینان سے کہا۔ ’’ کیپٹن عارف! تم بھی ان لوگوں کے ساتھ چلے جائو۔ شیڈ کی تیسری رو میں میری کار پانچویں نمبر پر کھڑی ہے۔‘‘ وہ لوگ چلے گئے۔ میں کمرے میں اکیلی رہ گئی۔ دماغ میں یہ خیال تھا کہ میری کار دیکھ کر وہ مایوس ہی ہوں گے۔ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ اس قسم کے معاملات میں اس ملک کے سفارت خانے کی دل چسپی خاصی تشویش ناک بات ہے۔ چند منٹ بعد ہی کیپٹن عارف تیزی سے کمرے میں آیا۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ’’ یہ لوگ کار کو اندر سے بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ کیپٹن عارف نے کہا۔ ’’میں نے ان سے کہا کہ کار کی چابی تو آپ کے پاس ہوگی۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ سے چابی لائی جائے۔‘‘ میں غصے سے کھڑی ہوگئی۔’’ انہیں کوئی حق نہیں کہ میری کار اندر سے دیکھیں۔‘‘ ’’میں نے بھی یہ بات ان لوگوں سے کہی تھی لیکن وہ اس کے لیے بہ ضد ہیں۔‘‘ میرے قدم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے۔ پارکنگ شیڈ میں پہنچ کر میں نے سفارتکاروں سے کہا۔ ’’ آپ میری کار اندر سے کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘ ایک سفارت کار نے تلخ لہجے میں کہا۔ ’’ آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ اگر دوسری گاڑی نے سامنے سے ٹکر ماری ہوتی تو وہ بھی تباہ ہوتی۔‘‘ ’’ تو پھر؟ ‘‘میں اسے گھورنے لگی۔ ’’جس ذریعے نے ہمیں اس حادثے کے بارے میں اطلاع دی ہے، اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ دوسری گاڑی ریورس گیئر میں ہمارے آدمی کی کار کی طرف آئی تھی اور ٹکر ماری تھی۔‘‘ ’’اس صورت میں میری گاڑی کا پچھلا حصہ تباہ ہونا چاہیے تھا لیکن آپ دیکھ چکے ہیں کہ میری گاڑی کا پچھلا حصہ صحیح سلامت ہے۔‘‘ ’’ذریعے نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ ریورس گئیر کرتے وقت آپ کی گاڑی کے عقبی حصے میں ایک فولادی شیلڈ آگئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کے اندر کسی قسم کا میکنزم ہے جس کے ذریعے وہ شیلڈ کار کے نچلے حصے سے باہر آئی تھی۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کی گاڑی میں ایسا کوئی میکنزم ہے یا نہیں!‘‘ میں جواب میں کچھ کہہ نہیں پائی تھی کہ ایک شخص تیزی سے قریب آیا۔ ’’ کمانڈر صدف آپ ہیں؟ ‘‘اس نے مجھ سے سوال کیا۔ ’’جی۔‘‘ میں نے اسے گھور کر دیکھا۔ ’’ آپ کون؟‘‘ ’’ میرا تعلق اسی سفارت خانے سے ہے جس کا حوالہ آپ کو دو آدمیوں نے دیا ہے۔ آپ میرے سفارت خانے فون کرکے معلوم کرسکتی ہیں کہ وہاں سے کسی کو نہیں بھیجا گیا۔ ان دونوں نے جعلی کاغذات دکھائے ہوں گے۔‘‘ اس کی بات سنتے ہی وہ دونوں آدمی بہ سرعت پیچھے ہٹ کر ہم لوگوں سے کچھ دور ہوئے۔ دونوں ہی نے ریوالور نکال لیے تھے۔ ہم سب ان ریوالوروں کی زد پر تھے۔ جعلی سفارت کاروں کے ریوالور کیا رنگ لائے؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں!