میں نے والدہ کو بستر پر لٹاتے ہوئے سرھانے رکھے فلاسک سے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیتے ہوئے ڈیڈی سے پوچھا ۔ ’’کیا معاملہ ہے ڈیڈی ؟کیا ہوگیا طلعت کو ؟ ‘‘ ’’ اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا ہے ۔‘‘ ڈیڈی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ۔ ’’ وہ اپنے کالج کی کسی دوست سے ملنے گئی تھی ۔ جب اس کی واپسی میں دیر ہوگئی تو اس کے موبائل پر رابطہ کرنا چاہا ۔ وہ بند ملا تو اس کی دوست کو فون کیا گیا ۔ اس نے بتایا کہ طلعت کو اس کے پاس سے واپس گئے بہت دیر ہوچکی ۔‘‘ ’’ مائی گاڈ! ‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ مجھے خیال آیا کہ بانو کا فون ہوگا ۔ اس وقت میرا دماغ اتنا پریشان اور الجھ گیا تھا کہ میں کسی اور کی کال ریسیو نہیں کرتی لیکن اسکرین پر بانو کے نام کی بہ جائے ایک اجنبی نمبر دیکھ کر بھی کال ریسیو کی ۔ ’’یس؟‘‘ کال میں نے اس خیال سے ریسیو کی تھی کہ طلعت کو اغوا کیا جاچکا ہے اور یہ کال اغوا کرنے والے ہی کی ہوگی ۔ میرا خیال درست ثابت ہوا ۔ دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز آئی ۔ ’’ امید ہے کہ تمھیں اب تک اپنی بہن کے غائب ہونے کی اطلاع مل چکی ہوگی۔‘‘ یہ انگریزی میں کہا گیا تھا ۔ ’’کون ہو تم ؟‘‘ میں نے دانت پر دانت جما کر کہا ۔ ’’ تمھاری بہن کو اغوا کرلیا ہے ہم نے ۔‘‘ جواب آیا ۔ ’’ تمھیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ہم کون ہیں !‘‘ ڈیڈی اب والدہ کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے میری طرف دیکھ رہے تھے ۔ جواب سن کر میں نے کہا ۔ ’’ موساد؟ فری میسن ؟‘‘ ’’ہمیں کاف مین کی ڈائری چاہیے ۔‘‘ میرا سوال نظر انداز کردیا گیا ۔ ’’ میری بہن کہاں ہے ؟‘‘ میں نے بھی اس کی بات نظر انداز کردی تھی ۔ ’’ وہ جہاں بھی ہے ، خیریت سے ہے ۔ ہم نے ابھی تک تو اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی ۔ آئندہ کیا ہوگا ؟ یہ اس مطالبے کے جواب پر منحصر ہے جو میں نے ابھی تم سے کیا ہے ۔‘‘ ’’بزدلو!‘‘ میں نے دانت پیسے ۔ ’’مجھ پر تمھارا بس نہیں چلا تو تم نے ایک معصوم پر ہاتھ ڈالا ہے ۔‘‘ ’’ یہ میرے مطالبے کا جواب نہیں ۔‘‘ اس وقت میری والدہ کو ہوش آگیا تھا ۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور چیخ پڑیں ۔ ’’ میری بچی کہاں ہے صدف ؟‘‘ ’’تم مجھ سے دس منٹ بعد بات کرنا ! ‘‘ میں نے مائوتھ پیس میں کہا۔ ’’ میں پندرہ منٹ بعد فون کروں گا ۔ شاید یہ تمھاری ماںکی چیخ تھی ، تم اسے سنبھالو،ہمیں کوئی عجلت نہیں ہے ۔‘‘ اتنا کہہ کر دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ ڈیڈی میری والدہ کی ہمت بندھانے کی کوشش کررہے تھے ۔ میں جلدی سے ان کے قریب گئی اور انھیں اپنے گلے لگا لیا ۔‘‘ ’’ ہمت سے کام لیں ممی ! …آپ کی بیٹی صدف ہے نا آپ کے پاس ! …طلعت آجائے گی …یہ میرا وعدہ ہے آپ سے !‘‘ اسی وقت میری دوسری بہن رفعت آنکھیں ملتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔ غالباً وہ سوتے سے اٹھی تھی ۔ اسے کچھ معلوم نہیں ہوگا ۔ اس کی عمر اس وقت دس سال تھی ۔ طلعت سے آٹھ سال چھوٹی تھی ۔ ’’کہاں چلی گئی میری بچی ؟‘‘ والدہ نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے مجھ سے پوچھا ۔ ’’کچھ بدمعاشوں نے اغوا کرلیا ہے اسے ! ‘‘ والدہ کو کچھ بتانا تو ضروری تھا۔ ’’ وہ تاوان مانگ رہے ہیں ۔ طلعت آجائے گی ۔‘‘ ’’ کہاں ہیں طلعت آپا؟‘‘ رفعت قریب آگئی ۔ اس کے چہرے سی پریشانی ظاہر ہونے لگی تھی ۔ ’’ڈیڈی ! آپ ان دونوں کو سنبھالیں ۔ مجھے کچھ کرنا ہے ۔‘‘ ڈیڈی نے رفعت کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور والدہ سے کہا ۔ ’’ تمھاری پریشانی صدف کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوگی ۔ اسے طلعت کی بازیابی کے لیے کچھ کرنے دو ۔‘‘ میری والدہ کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ۔ وہ میری طرف دیکھتی رہیں ۔ ڈیڈی رفعت کو بھی سمجھانے لگے ۔ میں اس وقت اپنے محکمے کے ایک کیپٹن سے رابطہ کرنے کے لیے موبائل پر اس کانمبر ملا رہی تھی ۔ رابطہ ہوگیا ۔ دوسری طرف سے آوازآئی ۔ ’’کیپٹن شجاع، کمانڈر۔‘‘ ’’ ایک موبائل نمبر لکھ لو ۔‘‘ میں نے اس سے کہا ۔ پھر نمبر لکھوانے کے بعد بولی ۔ ’’ دس گیارہ منٹ بعد اس نمبر سے میرے لیے کال آئے گی ۔ ٹریس کیا جائے کہ وہ کہاں سے کی گئی ہے ۔‘‘ ’’بہتر۔‘‘ میں نے رابطہ منقطع کردیا ۔ دماغ بہت الجھ گیا تھا ۔ اگر کاف مین کی ڈائری میرے پاس ہوتی تو بھی ان لوگوں کا مطالبہ نہیں مانا جاسکتا تھا لیکن ڈائری میرے پاس تھی ہی نہیں ۔ کاف مین کی لیبارٹری تباہ ہوچکی تھی ۔ ڈائری اس کے ملبے میں دب چکی ہوگی ۔ مجھے خیال ہی نہیںآیا تھا کہ فوج سے رابطہ کرتی اور ان سے کہتی کہ اس ملبے میں وہ ڈائری تلاش کی جائے ۔ اب وقت بھی خاصا گزر چکا تھا ۔ یہ بھی ممکن تھا کہ فوج نے وہ ملبہ صاف کردیا ہو ۔ ان لوگوں کو ڈائری کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ ملبے میں اسے تلاش کرتے ۔ اضطراب اتنا تھا کہ میں کمرے میں ٹہلنے لگی تھی ۔ یہ خیال بھی پریشان کن تھا کہ طلعت پر کیا گزررہی ہوگی ۔ فون کرنے والے نے کہا تو تھا کہ ابھی تک اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے لیکن ان کتوں کی کسی بات پر اعتبار کرنا حماقت ہی ہوتی ۔ شجاع سے بات کرنے کے بعد میں نے بانو کا نمبر ملایا ۔ ان سے رابطہ ہوگیا تو انھیں ساری بات بتائی ۔ ’’ تم فوراً میرے پاس آئو ! ‘‘ بانو نے سب کچھ سن کر کہا ۔ ’’ ابھی اس کا فون آنے والا ہے ۔ اس کا انتظار تو کرنا پڑے گا ۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’اس سے پوچھنا کہ ڈائری اسے کس طرح دی جائے گی اور طلعت کی بازیابی کیسے ہوگی؟ ‘‘ ’’ ڈائری ہمارے پاس ہے ہی نہیں تو اسے کہاں سے دی جائے گی ! وہ تو لیبارٹری کے ملبے میں …‘‘ میری بات کٹ گئی ۔ ’’ تم اس سے کہہ تو دینا ۔ پھر دیکھا جائے گا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اس کے بعد فوراً میرے پاس آنا۔‘‘ بانو نے خود ہی رابطہ منقطع کردیا ۔ کیا طلعت صحیح سلامت واپس آسکی ؟ کل کے روزنامہ 92 نیوزمیں پڑھیے !