بانو نے اپنی خواب گاہ کا رخ کیا تھا ۔ ’’ کچھ دیر آدام کرنے کا موڈ ہے۔ ‘‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا ۔ میں بھی ان کے ساتھ بستر پر لیٹ گئی ۔ انھوں نے محبت سے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں ۔ ’’ ایک موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’کرو۔‘‘ ’’ جب ان لوگوں نے مجھے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی ، اس وقت کئی راستے مجھے ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے بدلنے پڑے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ وہ راستے اتفاقاً بند نہیں ہوئے تھے ۔ انھی کے ساتھیوں نے اپنی گاڑیوں کو ایسے طریقے سے چلایا ہوگا کہ ٹریفک پھنس جائے ۔ یہی حرکت اس سڑک پر کی گئی جو میں متبادل راستے کے طور پر اپنا سکتی تھی ۔ اسی طرح ان لوگوں نے مجھے مجبور کردیا کہ میں وہ قدرے ویران راستہ اختیار کروں جہاں وہ مجھے اغوا کرنا چاہتے تھے۔ ‘‘ ’’ تمھارا خیال سو فی صد صحیح ہے۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’جب تم نے خود یہ بات سمجھ لی ہے تو اس موضوع پر مجھ سے بات کرنے کی کیا ضرورت ہے ! ‘‘ ’’میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس بارے میں آپ نے کچھ اندازہ لگایا ہے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ وہ لوگ مجھے کیوں اغوا کرنا چاہتے تھے؟‘‘ ’’ اس بارے میں ابھی حتمی طور پر کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ‘‘ ’’غیر حتمی طور پر کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ؟‘‘ ’’ بس قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ تم سے شاید کسی قسم کی معلومات حاصل کرناچاہتے ہوں ۔ یہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ وہ کیا معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں گے !‘‘ ’’ہوں۔‘‘میں چپ ہو کر کچھ سوچنے لگی ۔ ’’ اسی بارے میں سوچنے لگیں؟‘‘ بانو نے پوچھا ۔ ’’نہیں بانو!مجھے اس فائل کا خیال آگیا تھا جو مجھے مسٹر داراب سے ملی ہے ۔ اب تک وہ مجھے پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ ‘‘ ’’کچھ وقت میرے ساتھ آرام کرو، پھر گھر جا کر پڑھنا۔‘‘ میں بانو کی خواہش مسترد نہیں کرسکتی تھی ۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد انھوں نے مجھے جانے کی اجازت دی ۔ ’’ پورچ میں تمھاری وہی کار کھڑی ہے جسے تم نے الٹرا بلٹ پروف کا نام دیا ہے۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ میں نے ہنس کر کہا ۔ ’’ اب تو میں اسے الٹرا فائٹر کہا کروں گی ۔‘‘ ’’دشمن اب اس کار سے خوف زدہ ہو گئے ہوں گے۔ ،، بانو نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ وہ اب کبھی اس کار کے قریب ہونے کی بھی کوشش نہیں کریں گے۔ ‘‘ میں نے بانو کے اس خیال سے اتفاق کیا اور ان سے رخصت ہوئی ۔ اپنی الٹرا فائٹر کار میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میں ڈیوڈ ڈورون کے بارے میں سوچنے لگی جس کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپاہج ہونے کے باوجود فری میسن لاج کا ایک اہم آدمی تھا اور ملک کی ایک مقتدر شخصیت کو اس سے ملنے کا مشورہ دیاگیا تھا ؟ یہ مجھے شاید کاف مین کی ڈائری سے معلوم ہوجاتا ۔ جب میں گھر پہنچی تو شام ہوچکی تھی ۔ میں نے چائے پی اور اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی ۔ فائل میرے سرھانے ہی رکھی ہوئی تھی ۔ میں نے وہ اٹھائی اور اسے پڑھنا شروع کیا ۔ ابتدائی مہینوں کے صفحات میں ایسی کوئی تحریر نہیں تھی جو میری توجہ حاصل کرسکتی ۔ ان صفحات میں وہ باتیں تھیں جب وہ تل ابیب میں تھا ۔ میری توجہ اس تحریر پر مرکوز ہوئی جو ڈیوڈ ڈورون سے نواز شریف کے ایک قریبی وزیر کی ملاقات کے بارے میں تھی ۔ کاف مین ، ڈیوڈ ڈورون کا بھائی تھا ۔ اسے اس ملاقات کی تفصیل اس وقت معلوم ہوئی جب ڈیوڈ ڈورون نے اسے یہاں بلایا ۔ یہ ملاقات کیوں ہوئی تھی ؟ اس کا ذکر میں پہلے کرچکی ہوں لیکن جو میرا یہ ’’زندگی نامہ‘‘ پڑ ھ رہے ہیں ، ان کو یاد دلانے کے لیے میں یہاں دوبارہ لکھتی چلوں ۔ ایک طاقت ور ملک نے جو نواز حکومت کا دوست ہے ، یہ اطلاع دی تھی کہ پاکستانی حکومت اپنی مضبوطی کے سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہے جس کا سبب اس کے کاسہ لیس ہیں ، خاص طور سے پرویز رشید اور عرفان صدیقی ، وہ نواز شریف کو ہمیشہ ’’ سب ٹھیک ہے ‘‘ کی اطلاع دیتے رہتے ہیں کیونکہ اسی میں ان کے مفادات ہیں ۔ اطلاع میں یہ بات بھی تھی کہ آنے والے انتخابات میں اس کو شکست ہوگی اگر اس نے پہلے سے ہی خو دکو مضبوط کرنے کے لیے کچھ اقدامات نہ کیے ۔ اس اطلاع کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں ڈیوڈ ڈورون سے ملاقات کرلی جائے ۔ چنانچہ خفیہ طور پر ملاقات ہوئی تھی ۔ اس کے بارے میں میں کاف مین نے لکھا تھا کہ اس کے بھائی ڈیوڈ ڈورون نے بتایا تھا کہ اس نے نواز شریف کے وزیر کو دو تین مشورے دیے تھے ۔ ایک بات تو یہ کہی تھی کہ عمران خان نیاز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو تنگ نظری سے نہ دیکھا جائے ۔ دوسرا مشورہ یہ تھا کہ نواز شریف کو اپنے دوست نریندر مودی کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ وہ پاکستانی سرحد پر فوجی دخل اندازی میں تیزی لائے تاکہ فوج کو اس طرف خصوصی توجہ دینی پڑے ۔ تیسرے یہ کہ طالبان کی کارروائیاں تیز کروانے کے سلسلے میں فری میسن لاج بہت کچھ کرسکتی ہے ۔ فوج کو مشرقی سرحد اور دہشت گردی کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ کیا جائے تو نوازشریف کو مارشل لا کا جو خطرہ ہے ۔ وہ ٹلا رہے گا (اگرچہ بعد میں ایسا وقت آیا تھا جب نواز شریف کی یہ خواہش رہی تھی کہ مارشل لالگے اور جمہوریت کی بساط الٹ جائے) میں نے یہیں تک پڑھا تھا کہ موبائل پر کیپٹن عارف کی کال آگئی ۔ ’’یس کیپٹن!‘‘ میں نے کال ریسیو کی ۔ ’’ برائن اب تھوڑا بہت بولنے لگا ہے کمانڈر!‘‘ کیپٹن عارف نے اطلاع دی ۔ ’’لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ابھی اس سے بیان لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ کل کسی وقت اس کی حالت اتنی بہتر ہو جائے گی کہ وہ بیان دے سکے ۔‘‘ ’’مجبوری ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’کوئی اور خاص بات؟ ‘‘ ’’جی نہیں!بس اتنا ہی بتانا تھا۔‘‘ ’’تم لوگ بہت تھک گئے ہو گے ۔ میں ابھی کیپٹن جاوید کو فون کرتی ہوں ۔ وہ چند افراد کے ساتھ ہاسپٹل آکر تم لوگوں کی جگہ لے لے گا ۔ تم لوگ اب کل تک آرام کرو ۔‘‘ ’’اوکے کمانڈر!‘‘ میں نے رابطہ منقطع کر کے کیپٹن جاوید سے رابطہ کیا ، اسے ہدایات دیں ، پھر دوبارہ فائل کی طرف متوجہ ہوئی ہی تھی کہ میری والدہ بڑی تیزی سے دروازہ کھولتی ہوئی اندر آئیں ۔ ’’صدف صدف ! …طلعت ۔‘‘ ان کے منہ سے نکلا اور وہ ڈگمگاگئیں میں بستر سے تیزی سے اٹھ کر ان کے قریب گئی اور انھیں اپنے بازو ئوں میں سنبھال لیا ورنہ وہ فرش پر گر پڑتیں ۔ وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ وہ مجھے یہ نہیں بتا سکیں کہ انھوں نے طلعت کا نام کیوں لیا تھا ! میری دو بہنوں میں سے ایک کا نام طلعت ہے ۔ اسی وقت کھلے ہوئے دروازے سے ڈیڈی کی وھیل چیئراندر آئی ۔ ڈیڈی کے چہرے سے بھی صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ بے حد پریشان تھے ۔ طلعت کا مسئلہ کیا تھا ؟ کل کے روزنامے میں پڑھیے !