جو کچھ ہوا تھا، ہم سبھی کے لیے غیر متوقع تھا۔ ’’ کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے! ‘‘جعلی سفارت کاروں میں سے ایک نے ریوالور اپنی انگلی پر گھماتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔ اسی وقت میں نے دیکھا کہ ان دونوں کے عقب میں بنے ہوئے، شیڈ کے ایک ستون کی آڑ سے بانو نکلیں، ان کے ہاتھ میں ریوالور تھا، میں نے اس وقت چونکنے کا تاثر اپنے چہرے پر نہیں آنے دیا لیکن پولیس آفیسر، نووارد سفارت کار اور کیپٹن عارف کے چہرے پر چونکنے کا ایسا تاثر آگیا جیسے انھوں نے جعلی سفارت کاروں کے عقب میں کسی کو دیکھا ہو۔ ’’ بے وقوف نہ بنائو! ‘‘جعلی سفارت کار نے استہزائیہ انداز میں کہا۔’’ دھوکا دینے کا یہ طریقہ بہت گھس پٹ چکا ہے۔ تم ہمیں اپنے عقب کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہو۔‘‘ لیکن اس کے دوسرے ساتھی نے سر گھما کر پیچھے دیکھ لیا تھا۔ ’’ ہوشیار۔ ‘‘اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور جلدی سے مڑ کر بانو پر گولی چلادی۔ عجلت میں چلائی گئی وہ گولی ضائع ہوگئی۔ ضائع ہونے کا سبب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ بانو تیزی سے ایک طرف جھک گئی تھیں۔ پھر انہوں نے فائر کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ اس آدمی کا وہ ہاتھ زخمی ہوگیا جس میں ریوالور تھا۔ ریوالور گرگیا۔ بانو نے فوراً ہی دوسرا فائر بھی کردیا اور اپنے ساتھی کے بعد پلٹ کر دیکھنے والے کے ہاتھ سے ریوالور نکل کر کچھ دور جاگرا۔ بانو نے اس کے ریوالور ہی کا نشانہ لیا تھا۔ اس آدمی کی انگلیاں بہ ہرحال زخمی ہوئی تھیں۔ پولیس آفیسر اور کیپٹن عارف نے تیزی سے آگے بڑھ کر ان دونوں کو گریبان سے پکڑنا چاہا تو وہ دونوں ان سے لپٹ گئے۔ میں نے انہیں زیادہ آپا دھاپی کا موقع نہیں دیا۔ بہت تیزی سے آگے بڑھ کر ان دونوں جعلی سفارت کاروں کے سر پر ایسی ٹھوکریں ماریں کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے۔ گولیاں تین ہی چلی تھیں مگر ان کی آوازوں نے ایک ہلچل مچادی۔ عام لوگوں کے علاوہ ہاسپٹل کی انتظامیہ کے کئی افراد اور پولیس آفیسر کے ساتھ آئے ہوئے کانسٹیبل بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت میں بانو سے کہہ رہی تھی۔ ’’ بعض اوقات آپ کی اچانک آمد حیران کردیتی ہے۔‘‘ بانو پولیس آفیسر کی طرف دیکھنے لگیں جو کانسٹیبلوں سے کہہ رہا تھا۔ ’’ باندھ لو ان دونوں کو۔‘‘ اس وقت ان کے پاس ہتھکڑیاں نہیں ہوں گی۔ ’’ اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟ ‘‘اصلی سفیر نے مجھ سے پوچھا۔ ’’ میرا خیال ہے کہ.....!‘‘میں نے پولیس آفیسر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ انہیں رپورٹ درج کرانی ہوگی کہ ان دونوں نے اس حادثے کے سلسلے میں ان کے سفارت خانے کا نام استعمال کیا۔‘‘ ’’ جی ہاں۔ ‘‘پولیس آفیسر نے کہا،پھر اس نے بانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ رپورٹ میں آپ کا نام بھی آئے گا کہ آپ ہی کی وجہ سے ان دونوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔‘‘ ’’ یہ بانو ہیں جو…‘‘ میں نے تعارف کرانا چاہا۔ پولیس آفیسر نے مسکراتے ہوئے میری بات کاٹ دی۔ ’’ میں انہیں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ ایک اہم کیس میں انہوں نے ہمیں کچھ معلومات فراہم کی تھیں جو بالکل درست ثابت ہوئیں۔‘‘ ’’ غالباً مجھے بیان بھی دینا ہوگا۔ ‘‘بانو بولیں۔ ’’ جی ہاں۔ بتانا تو ہوگا کہ آپ عین وقت پر یہاں کیسے پہنچ گئیں؟‘‘ ’’ اتفاق سے۔ ‘‘بانو نے جواب دیا۔ ’’ کچھ دور میں نے اپنی کار کھڑی کی تھی تو یہ منظر دیکھا۔ میں کار سے اتر کو فوراً ادھر آئی۔ ہاسپٹل میں مجھے کسی سے ملنا ہے۔‘‘ میں زیر لب مسکرا کر رہ گئی۔ بانو کا بیان قطعی فرضی تھا اور میں یہ جاننے کے لیے بے چین تھی کہ دراصل وہ یہاں کیوں پہنچیں! پولیس والے جعلی سفارت کاروں کو اٹھا لے گئے تھے۔ انہیں پولیس موبائل میں ڈال دیا گیا ہوگا۔ پولیس آفیسرنے بانو سے کہا۔ ’’ ضروری نہیں کہ آپ ابھی پولیس اسٹیشن چل کر بیان دیں۔ شام تک کسی وقت بھی آکر دے دیجیے گا۔‘‘ ’’ تو اب میں چلتی ہوں‘جن صاحب سے ملنے آئی ہوں انہیں کے پاس جائوں گی۔‘‘ ’’ میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ ‘‘میں نے بانو سے کہا اور کیپٹن عارف سے بولی۔ ’’ برائن کے بیان تک تمھیں یھیں رکنا ہوگا۔‘‘پولیس آفیسر کو واپسی کے لیے مڑتے دیکھ کر میں پھر بولی۔ ’’ سنیں آفیسر!‘‘ ’’ جی۔ ‘‘آفیسر میری طرف مڑا۔ ’’ان دونوں کا بیان میرے محکمے کے لیے بھی اہم ہوگا۔ مجھے اطلاع دیجیے گا، لیکن یہ طے ہے کہ یہ آسانی سے زبان نہیں کھولیں گے۔‘‘ ’’ میں دیکھتا ہوں کہ یہ کیسے نہیں بولتے!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے سرہلایا اور بانو کے ساتھ چل دی۔ ’’ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہاں کسی سے نہیں ملنا۔‘‘ ’’ ہاں۔ ‘‘بانو نے کہا۔ ’’ جو کہا ہے وہ دکھانا تو ہوگا۔ اسپتال کی دو ایک راہ داریوں کا چکر لگانے کے بعد میں یہاں سے سونیا کو دیکھنے جائوں گی۔‘‘ ’’ اسے دیکھنے تو میں بھی جائوں گی۔ ‘‘یہ بتایئے کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے؟ ’’مجھے خیال آرہا ہے کہ اس معاملے میں آپ کا کچھ ہاتھ ضرور ہے۔‘‘ ’’ ٹھیک سمجھا ہے تم نے… دراصل مصری سفارت خانے کی بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آرہی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ معلومات تو حاصل کی جائیں۔ میں نے مصری سفارت خانے سے رابطہ کیا اور ایک ذمے دار شخص سے بات کی جو مجھے جانتا ہے۔ معلوم ہوا کہ نہ ان کا کوئی آدمی زخمی یا ہلاک ہوکر ہاسپٹل گیا ہے اور نہ انھوں نے کسی آدمی کو ہاسپٹل بھیجا ہے۔ تب میں نے انھیں حالات سے آگاہ کیا۔ اسی لیے وہاں ایک آدمی کو بھیجا گیا تھا۔ میں بھی فوراً وہاں پہنچی تھی۔ میں نے دیکھا تھا کہ تمھاری کار کے پاس لوگ جمع تھے۔ پھر تم بھی آگئی تھیں۔ میں نے سامنے آنا ضروری نہیں سمجھا تھا لیکن جب صورت حال بگڑی تو میں حرکت میں آگئی۔‘‘ ان باتوں کے دوران میں ہم نے ہاسپٹل کی ایک راہ داری کا چکر لگایا اور پھر وہاں سے نکل کر اپنی اپنی کار میں اس ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئے جہاں سونیا تھی۔ گزشتہ روز کی بہ نسبت اس کے چہرے پر بشاشت تھی۔ وہ ہمیں دیکھ کر مسکرائی۔ اس نے بانو کا شکریہ ادا کیا۔ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے اسکرین پر ایک اجنبی نمبر دیکھا لیکن کال ریسیو کی۔ ’’ہیلو!‘‘ دوسری طرف سے ایک ایسی اطلاع ملی کہ میرے منہ سے نکل گیا۔’’ ارے!‘‘ صدف کو کیا اطلاع ملی تھی؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے