آباؤ اجداد۔۳…میاں شرف الدین وِرک سے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ ان کے چار ایکڑ میں واقع دربار کے احاطے میں واقع چھپڑی (جسے اب پختہ کر کے تالاب کی شکل دے دی گئی ہے ) پہ غسل کرنے سے جِلد کی ہر طرح کی بیماری ختم ہو جاتی ہے۔ مریض جس لباس میں آتا ہے، غسل کے بعد وہ لباس وہیں دیوار یا درختوں پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ بے شمار عقیدت مندملک اور بیرونِ ملک سے علاج کی غرض سے آج بھی وہاں آتے ہیں۔ اگر اس مِتھ کی تحقیق میں جاتے تو ہم بڑے فخر ساسے کہہ سکتے تھے کہ ہمارے دادا کے پردادا اپنے زمانے کے ماہرِ امراضِ جلد (skin specialist) بھی تھے کیونکہ ایک بات مصدقہ ہے کہ میاں شرف الدین اٹھارھویں صدی کے اختتام کے قریب دِلّی سے قانون، صرف و نحو وغیرہ کے ساتھ طب، کیمیا اور حکمت کی تعلیم حاصل کر کے لوٹے تھے۔ ان کی فارسی اور سنسکرت میں تاریخ اور طب پر لکھی دو عدد کتب بہت عرصہ بعض عزیزوں کے پاس محفوظ رہیں۔ گمان غالب ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے میں کوئی ایسا مرہم یا محلول تیار کیا ہوگا، جس میں جِلدی امراض کے جلدی علاج کی تدبیر موجود ہوگی اور لوگوں کی کثیر تعداد کو اس سے شِفا بھی ملی ہو۔ ایک بڑی جاگیر (سو مربع زمین) کے مالک ہونے کی بنا پر کوئی مالی مجبوری تو تھی نہیں، اس لیے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر یا رفاہِ عامہ کی غرض سے کوئی ایسا حوض بنوا دیا ہو، جس کے پانی میںوہ کارگر سفوف یا محلول شامل کیا جاتا ہوگا۔ ویسے بھی دوائی یا طبی دانائی اگر کمائی سے ماورا ہو جائے تو مسیحائی کا درجہ اختیار کر لیتی ہے لیکن ہماری اگلی نسلوں نے اپنی جہالت، سادگی یا کم کوشی کی بنا پر اس طبی سائنس کی مہارت کو بے بصر عقیدت کے ساتھ جوڑ دیا اور ظاہر ہے عقیدت کا نہ صرف عقلی تجزیہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ اسے واپس تحقیق کی طرف لانا کارِ دارد ہوتا ہے۔ میاں جی کا خطاطی کردہ قرآن کا نسخہ تو ہمارے بچپن میں ہمارے گاؤں ہوئیکے کی اکلوتی جامع مسجد میں دیکھا جا سکتا تھا۔ طب اور حکمت سے متعلق کتابوں کے بارے میں بھی بعض مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔ کافی لوگوں نے انھیں دیکھنے کی تصدیق کی۔ ایک کتاب کی بابت بتایا گیا کہ اس میں کوئی شجرہ یا تاریخی باتیں تھیں اور دوسری میں مختلف امراض سے متعلق مختلف طبی نسخے اور بیماریوں کی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔ دونوں کتب فارسی اور سنسکرت میں تھیں (کہ ہندوستان بھر میں یہی اس زمانے کی سائنسی اور علمی زبانیں تھیں) راقم نے حالیہ دنوں میں تحریر کے استناد کی غرض سے از سرِ نو تحقیق کی تو پتہ چلا کہ قرآنی نسخے کو شکستہ حالت میں ہونے کی وجہ سے اہلِ دہ نے اس وقت کے امام مسجد کے مشورے اور بے ادبی کے خوف سے چپکے سے کہیں زمین میں دبا دیا تھا۔ (ادب کا انداز ملاحظہ ہو) جہاں تعلیم اور آگہی کا فقدان ہو وہاں اسی طرح کا اقدام، احترام کہلاتا ہے۔ حضرتِ اقبال کے اس شکوے: مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ کو پڑھ کے ابنِ انشا نے لکھا تھا کہ اچھا ہوا کہ ہمارے آبا کی کتابیں انگریز اٹھا لے گئے اور انھیں نہ صرف قیمتی شیلفوں اور جگمگاتے کتب خانوں میں محفوظ کر لیا بلکہ اس تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا میں نام بھی پیدا کیا۔ اگر وہ ہمارے پاس ہوتیں تو دیمک اور جہالت انھیں کب کی چاٹ چکی ہوتی۔ اگر گھروں میں ہوتیں تو اگلی نسل نے اسے ردی سمجھ کر بیچ یا پھینک بھی دیا ہوتا۔ معروف مزاح گو شاعر جناب نذیر احمد شیخ نے کسی شاعر کے ساتھ اس کے ان پڑھ اہلِ خانہ کے سلوک کی بابت بجا لکھا تھا کہ: بیوی نے اٹھا کر جو کبھی بیچ دی ردی سب رومی و فردوسی و اقبال ندارد قبل ازیں میاں جان محمدؒ کی بیش قیمت شاعری کے بیشتر حصے کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تھا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں مقدس کاغذات کے احترام کی دو ہی صورتیں رائج ہیں: مٹی میںدبا دینا یا پانی میںبہا دینا۔ میاں شرف الدین کی طب اور تاریخ والی کتب کی بابت اب بھی شنید ہے کہ ایک عزیز نے ’بابے‘ کی اس نشانی کو برکت کی خاطر مدت سے بلکہ نسل در نسل رضائیوں والی پیٹی میں چھپا رکھا ہے۔ راقم نے گزشتہ روز معلومات کے حصول یا بازیابی کی غرض سے اسی خاندان کے ایک فرد سے گاؤں میں جا کے ملاقات کی تو پتہ چلا کہ کتابیں واقعی تھیں لیکن سنسکرت میں ہونے کی وجہ سے ہمارے کسی کام کی نہیں تھیں۔ عرض کی کہ کسی عالم کو دکھا کے کم از کم ان کے مندرجات ہی کا پتہ چلایا ہوتا؟ کہنے لگے: ہم نے اپنے پیر صاحب کو دکھائی تھیں، جنھوں نے دیکھ کر کہا تھا کہ ایک میں تو ان کا کوئی شجرہ وجرہ بیان کیا گیا ہے اور دوسری کو انھوںنے اچانک (Randomly) ایک جگہ سے کھول کر بتایا کہ اس میں کیمیا کے ذریعے سونا بنانے کا کوئی نسخہ درج ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے ہدایت کی خبردار! ان کاموں کے پیچھے نہ پڑنا۔ اس کے بعد ہم نے انھیں کھول کر دیکھنا تو درکنار، کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ پیر صاحب کے اس قدر احترام پر مَیں عش عش کر اُٹھا۔ کتب کی موجودگی سے متعلق انھوں نے فرمایا کہ تلاش کرنے پرپچھلی کوٹھڑی میں شاید کسی جستی صندوق یا الماری سے برآمد ہو جائیں۔ میرے اشتیاق کا عالم دیکھ کر انھوں نے دستیاب ہو جانے پر ان کا دیدار کرانے کا وعدہ بھی کیا: مَیں ہاتھ مَلتا رہ گیا ، وہ ہاتھ کر کے چلے گئے دل کو اب تک کھُد بُد سی لگی ہے کہ میر و سودا کے عروج، غالب کے عنفوان ، سراج الدولہ کے زوال، ٹیپو سلطان کی کشمکش اور فورٹ ولیم کالج کی منصوبہ بندی کے زمانے میں زندہ، علم ادب کے شوقین اور ایک عالم اور شاعر باپ کے بیٹے اس بابا جی نے کہ جنھوں نے دِلی، لاہور اور اس کے مضافات میں وقت گزارا، انھوں نے تاریخ والی کتاب میں جانے کن کن تجربات و مشاہدات کو کس اسلوب میں لکھا ہوگا؟ طب اور کیمیا والی کتاب میں کون کون سی موشگافیاں کی ہوں گی؟ مگر اپنے عزیزوں کی بے نیازی اور اطمینان دیکھ کر میرا جی چاہا کہ مَیں غالب، صوفی تبسم اور غلام علی کو ایک ساتھ حاضر ناظر جان کر کہوں: میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں… بہرحال ایک جنازے میں شرکت کی غرض سے کل ہی میاں شرف الدین کے قبرستان اور مزار پہ بھی جانا ہوا۔ طبی تالاب پہ بھی دوبارہ نظر کی۔ وہاں جا کے یہ احساس مزید گہرا ہوا کہ کم و بیش سو مربعے کے مالک کے حصے میں صرف چار ایکڑکا قبرستان آیا ہے۔ اس میں بھی مزار کی جگہ ایک ڈیڑھ مرلے سے زیادہ نہیں اور قبر تو وہی دو گز کی ہے۔ رنگون میں ایک فوجی کے گیراج میں دھرے، پورے ہندوستان کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا احساس تو اس سے بھی شدید تھا: دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں (جاری)