احمد جواد کبھی عمران خان کے انتہائی قریب ہوا کرتے تھے۔ اب وہی احمد جواد دل کا کانٹا بن گئے تو مکھن والے بال کی طرح نکال پھینکے گئے۔ کچھ ایسی بیان بازی کر دی تھی کہ شوکاز نوٹس دینا پڑا۔ اس شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے پارٹی کے سابق سیکرٹری اطلاعات احمد جواد نے الٹا سوالنامہ جڑ دیا اور سوالنامہ بھی اتنا لمبا کہ ایک نہ دو‘ دس نہ بارہ‘ پورے تیس سوال اس میں شامل ہیں۔ جی ڈی پی بڑھانے میں مصروف حکومت کو بال کھجانے کی فرصت نہیں‘ اتنے لمبے چوڑے سوال نامے کی جواب دہی کیسے کرے گی۔ بڑے ہی دلچسپ سوال ہیں۔ اکثر ایسے کہ انہیں دھرانا بھی ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے۔ بایں ہمہ بعض اخبارات نے اسے جگہ دی ہے اور ایک دو ٹی وی پروگراموں میں بھی اس کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ سوالنامے کی عبارت فصیح بھی ہے اور بلیغ بھی ،لیکن پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال میں لکھا ہے‘ آپ نے تین سال میں پاکستان کو دنیا کا تیسرا مہنگا ترین ملک کیسے بنا دیا۔ درست فقرہ یا سوال یوں ہونا چاہیے تھا کہ آپ نے تین سال میں پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک کیسے بنا دیا؟ ٭٭٭٭٭ زیادہ تر سوالات تو ایسے ہیں کہ ان کی’’ اشاعت ثانی‘‘ سوئے ادب میں شمار ہوگی۔ بعض البتہ کم خطرناک ہیں‘ ان کا اعادہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے جواب بھی آسان ہیں۔ مثلاً یہ کہ پنڈورا لیکس میں جن سینکڑوں پاکستانیوں کے نام آئے‘ ان کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ اس ضمن میں صاحب سوالات نے یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ آپ تو حضرت عمرؓ کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ جو اب اس سوال کا آسان ہے۔ یہ کہ حضرت عمرؓ کا حوالہ دراصل ریاست مدینہ کا حوالہ ہے اور جب ریاست مدینہ بن جائے گی تو پنڈورا لیکس والوں کے خلاف کارروائی بھی شروع کر دی جائے گی۔ فی الحال ان میں سے کچھ نام کابینہ میں تشریف فرما ہیں‘ تسلی رکھئے‘ ریاست مدینہ بنتے ہی سب سے پہلے انہی کو پکڑ ا جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ ایک سوال یہ ہے کہ آپ کے تین سالہ دور میں کرپشن کو بہت ترقی ملی اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپٹ ترین ہونے کے حوالے سے پاکستان کا درجہ مزید بڑھا دیا۔ بالکل آسان جواب۔ درجہ بڑھا ہی ہے‘ کم تو نہیں ہوا۔ یہ رتبہ بلند بھلے سے کرپشن ہی ملے‘ ملا جس کو مل گیا بڑے نصیب کی بات ہے۔ ٭٭٭٭٭ کچھ سوال بھارت کے بیانئیے یعنی ’’نیریٹیو‘‘ کو تقویت دیتے ہیںمثلاً یہ کہ مالداروں کے لگژری گھر’’ریگولرائز ‘‘کر دیئے جاتے ہیں‘ غریبوں کے گھر گرادیئے جاتے ہیں۔ سوالنامہ اپنی جگہ غر،یبوں کے گھرسے یاد آیا‘ کراچی میں غریبوں کے بہت سے کوٹھے ایک ہی ٹاور میں تھے۔ بارودسے گرانے کا حکم آیا۔ بہرحال اس کی نوبت نہیں آئی‘ بنا بارود کے ہی پیوند ز میں کر دیا گیا۔ خرچہ بچا۔بارودسے اڑانے پر بہت خرچہ آتا ہے۔ غریب غربے اس قابل نہیں کہ ان پر اتنی رقم خرچ کی جائے۔ ٭٭٭٭٭ ایک سوال ہے کہ گندم‘ تیل و گیس‘ رنگ روڈ وغیرہ کے سکینڈلز میں آپ کو ابھی تک کوئی ذمہ دار نہیں ملا؟ملا بھئی‘ ملا لیکن وہ لندن بیٹھا ہوا ہے علاج کے بہانے گیا تھا‘ لوٹا بھی نہیں۔ شہزاد اکبر سے کہا ہے اسے پکڑ کر لائے‘ جونہی ہاتھ آیا ان سارے سکینڈلز کا حساب اس سے لیا جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ سخت غیر محب وطنانہ قسم کا ایک سوال یہ بھی مولف سوالنامہ نے کیا ہے۔ یہ کہ آپ کے دور میں کشمیر بھارت کا حصہ بن گیا اور روپیہ آدھا رہ گیا۔ کیسے ہوا؟ صا حب آپ نے نور جہاں اور جہانگیر کا قصہ نہیں سنا۔ جہانگیر بادشاہ نور جہاں کے ہاتھوں میں دو کبوتر دے گیا اور کہا کہ ابھی آتا ہوں۔ ادھر وہ گیا‘ ادھر نور جہاں کے ہاتھ سے ایک کبوتر اڑ گیا۔ بادشاہ نے واپس آ کر غصہ کیا کہ کبوتر کیسے اڑ گیا‘ نور جہاں نے کمال معصومیت سے دوسرا ہاتھ بھی کھول دیا اور کہا کہ ایسے اڑ گیا۔ بادشاہ کو دونوں کبوتروں کی پال پوسی سے نجات مل گئی۔ تو موجودہ حکومت بھی معصومیت میں کم نہیں۔ وہ ایسے گیا‘ یہ ایسے گیا۔ ٭٭٭٭٭ اپوزیشن کے ترجمان نے بیان دیا ہے جو پارلیمانی نظام میں ناکام رہے وہ صدارتی نظام میں بھی ناکام رہیں گے۔یعنی جو ٹیڑھے آنگن میں نہیں ناچ سکے‘ وہ سیدھے آنگن میں بھی نہیں ناچ سکیں گے۔ دوسرے لفظوں میں رادھا کو نرت کاری آتی ہی نہیں‘ نو کے بجائے اٹھارہ من تیل آ جائے تو بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔چلئے‘ نرت نہ سہی۔ بھائو تو دکھا رہی ہے بلکہ وصول بھی کر رہی ہے۔ یہ اتنا ہی کافی ہے۔ باقی صدارتی نظام کی بحث والا بلبلہ توجہ ہٹائو نوٹس ہے اور کچھ نہیں‘ محض چار گھڑی کی رونق سمجھئے۔ ٭٭٭٭٭ خاتون نے لائیو کال سیشن میں وزیراعظم سے پوچھا‘ آپ اتنے اچھے اچھے کام کر رہے ہیں‘ لوگ پھر بھی خوش نہیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ اچھے اچھے کام بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اچھے اچھے کاموں میں کچھ کمی کردیں کیونکہ کام کچھ زیادہ ہی اچھے ہو گئے ہیں۔ نیز کاموں میں اچھائی کی مقدار بھی کم کرنے کی خاصی ضرورت ہے۔