پاکستان کی سیاسی سارنگی یک رنگی(سترنگی‘یکرنگی) ہے۔ یہ ہر دو صورت نظریاتی ہے۔ یہ سکے کے دو رخ ہیں جو متضاد بلکہ متصادم ہیں۔ ایک رخ اسلامی اور دوسرا لبرل ہے۔ اسلامی نظام کا آغاز مسلمانوں کی برصغیر پاک و ہند میں آمد سے ہوا جبکہ دوسرا نظام برطانوی استعماری ہے جبکہ اسلامی نظام میں افراد اور حاکم ‘ قرآن اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی میں معاشرتی عدل کا قیام ممکن بناتے ہیں۔یعنی اسلامی نظام میں فردی گنتی سے زیادہ صائبی استعداد(احکام الٰہی کے مطابق) اہم ہوتی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی لبرل جمہوریت کے دور میں بھی اسلامی نظام حکومت و معاشرت کے قیام کے لئے کامیاب تحریک پاکستان چلائی، جو 14اگست 1947ء میں عالم اسلام کی سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی ریاست بن کر جلوہ گر ہوئی۔ بے شک پاکستان کا قیام اسلامی فکر و عمل کا ثمر ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے اندر پی پی پی کی بھٹو اور زرداری فیملی نے مغربی لبرل جمہوریت کے تسلسل کو اہمیت دی ۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے قبل پاکستان میں کوئی سیکولر اور لبرل سیاسی پارٹی نہیں تھی۔1965ء کی جنگ پاکستان کی لبرل اشرافیہ نے ملحد مذاہب سے وابستہ احباب و احزاب کے ساتھ سازباز کرکے شروع کی مگر جب جنرل ایوب نے جنگ میں دینی جذبہ بھرا تو بھارت اپنے مذموم عزائم میں ناکام رہا۔ اس ناکامی نے بھارت کے اندر ’’را‘‘ RAW بنایااور امریکہ نے بھارت کی بھرپور مالی امداد کے لئے ایشیائی ترقیاتی بنک بنایا جبکہ اقوام متحدہ اور متعلقہ امریکی ادارے پہلے ہی پاکستان کے مالیاتی نظام میں پنجے گاڑ رہے تھے۔ پاکستان کی لبرل سیاست نے قومی صنعتی انقلاب اور مالیاتی آسودگی کو ختم کرنے کی پالیسی اپنائی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان یورپ کے ممالک کو امدادی قرض دے رہا تھا اور تیسری دنیا یعنی پسماندہ اور ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں ایشیا ٹائیگر Asian Tigerکی دلپذیر مثال تھا۔ پی پی پی کی لبرل پالیسی نے پاکستان کے عوام کو بے روزگاری کا شکار کر دیا۔ نیز میڈیا کے ذریعے معاشرے میں بے لگام آزادی نے نظریاتی حیثیت کو پس پشت ڈال دیا۔ بے روزگاری نے لبرل معاشی جستجو کی راہ پر لگا کر مالی مسائل کے حل کے لئے دنیا میں دربدر ہونے پر مجبور کر دیا۔اور آج حکومت تارکین وطن کی فیملی ترسیل کو قومی خزانے کا اثاثہ سمجھتی ہے۔ اس لبرل سیاسی پالیسی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مجیب الرحمن شیخ کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی نصف نشستوں سے زاید نشستیں حاصل کیں مگر پی پی پی کی سیاسی اور غیر جمہوری پالیسی نے اِدھر ہم‘ اُدھر تم کی پالیسی اپنا کر مجیب الرحمن شیخ کو متحدہ پاکستان کا منتخب وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا مگر اپنی نظریاتی جداگانہ تشخص کو بحال رکھا اور ہندو بھارت کا حصہ بننے کے بجائے جداگانہ اسلامی بنگلہ دیش بننا قبول کیا۔ بنگلہ دیش تو بن گیا مگر علیحدگی کے مرکزی کردار عبرت کا نشان بن گئے۔ پی پی پی سرکار کے خلاف عوامی نظام مصطفی تحریک نے زور پکڑا اور جنرل ضیاء الحق کی فوجی نظریاتی حکومت جس کے بعدپی پی پی کی سیکولر اور سیاست کا آغاز ہوا ۔ بینظیر اور زرداری کا زور ٹوٹا تو بلاول در آیا مگر لبرل عوام بکھر گئے لہٰذا ’’عالمی لبرل کار سازوں‘‘ کو ایک نئی لبرل سیاسی پارٹی PTIبنانا پڑی۔ عالمی اور مقامی کار سازوں نے پاکستان کے اندر ’’لبرل دو جماعتی‘‘ سیاست و حکومت کی بنیاد رکھنے کے لئے پہلے سے موجود پاکستان مسلم لیگ کو بے دخل کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں بھی بظاہر مسلم لیگ کی نظریاتی حیثیت کو قائم رکھنے کی لاحاصل کوشش کی گئی جبکہ قائد اعظم کی وفات اور ان کے دستِ راست وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد سیاست و حکومت کی انارکی کا دور دورہ ہوا اور مسلم لیگ دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی۔وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی لبرل حکومت و سیاست کے دور میں نظریاتی احباب و احزاب کا ناطقہ بند رہا جنرل ضیاء الحق کے دور میں نظریاتی نشاۃ ثانیہ کا بندوبست کیا گیا اور مسلم لیگ کو ازسر نو منظم کیا گیا۔ گو 1985ء کے الیکشن غیر جماعتی اصول پر کرائے گئے اور بعدازاں انہیں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کر دیا گیا۔ اس دور میں بہت سے نئے سیاسی چہرے(احباب) تیار کئے گئے۔ محمد نواز شریف اور چودھری شجاعت حسین جنرل ضیاء الحق کی خصوصی شفقت اور تربیت کے زیر اثر رہے ۔ گو ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے پروردہ تھے مگر اس پروردگی میں بھٹو صاحب کا خوشامدی پہلو شامل تھا کہ وہ جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے اور بعض اوقات برسر محفل جنرل ایوب خان کے جوتے بھی صاف کرنے سے گریز نہیں کرتے۔بھٹو صاحب اقتدار کے خواہاں تھے لہٰذا موقع پا کر جنرل ایوب خان کو سیاسی گرد و غبار میں لپیٹ دیا۔ نواز شریف اور چودھری شجاعت حسین کی شخصیت اور کردار کا یہ پہلو نہیں۔ نیز جنرل ایوب نیشنلسٹ اور جنرل ضیاء نیشنلسٹ اور نظریاتی تھے ۔دونوں بظاہر فوجی آمر ایک ہی سکے کے دور ہم رنگ رخ ہیں جبکہ جنرل پرویز مشرف پاکستان میں لبرل اور مذہبی طور پر لبرل سیاسی پارٹیوں کے انٹرنیشنلسٹ سرپرست تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے عالمی سرپرستی کے تحت نواز شریف حکومت کے خلاف ڈرائنگ روم یا بند کمرے کی ساز باز سے اقتدار سنبھالا جبکہ جنرل ایوب سیاسی انارکی کرپشن اور مہنگائی کے باعث اقتدار میں آئے اور جنرل ضیاء الحق بھٹو کی لبرل اور بے حیا پالیسی کے خلاف نظام مصطفی جیسی عوامی تحریک کے نتیجے میں آئے‘ یہ نظریاتی یعنی اسلامی اور لبرل تفریق آج بھی موجود ہے جس کے تحت پی پی پی‘ پی ٹی آئی اور مذہبی لبرل سیاسی پارٹیاں متحد اور متحرک ہیں۔ اسی نظریاتی تفریق نے پاکستان کی سول ملٹری ‘ عدالتی اور عوامی دھڑے بندیاں بنا رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو دھڑے بندیوں سے بچائے اور حفاظت فرمائے۔