کراچی ،لاہور(92 نیوز رپورٹ، نیوز ایجنسیاں، کامرس رپورٹر) سٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کااعلان کردیا، بنیادی شرح سود ڈیڑھ فیصدبڑھاکر8 اعشاریہ 75 فیصد کردی۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی میں اضافے کودیکھتے ہوئے شرح سودمیں اضافہ کیاگیا۔مانیٹری پالیسی کے تحت گاڑیوں، پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت اور بجلی کی پیداوارمیں اضافہ ہوا،رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں 5.2 فیصد کی نمو ہوئی۔ زراعت میں کپاس کے سوا خریف کی تمام اہم فصلوں کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ، کپاس کی پیداوار پچھلے سیزن کے اسی عرصے کے مقابلے میں 80 فیصد بڑھ گئی ،مستقبل میں خام مال کی بڑھتی ہوئی لاگت اور معاشی پالیسیوں کے معمول پر آنے کے نتیجے میں صنعتی سرگرمیوں کی نمو میں کچھ اعتدال آنے کا امکان ہے ،اجناس کی مسلسل بلند قیمتوں اور مضبوط ملکی سرگرمی نے جاری کھاتے کے خسارے کو مالی سال22ء کی پہلی سہ ماہی میں 3.4 ارب ڈالر کی بلند سطح پر رکھا،برآمدات اور ترسیلا ت زر میں کسی قدر ماہ بہ ماہ کمی بھی آئی، مالی سال 2021/22کیلئے جاری کھاتے کاخسارہ جی ڈی پی سے بڑھنے کا امکان ہے ، جاری کھاتے کے خسارے کے سبب ڈالر مہنگا ہوا،مالی سال 2022 ئکی پہلی سہ ماہی میں مجموعی مالیاتی خسارہ جو پچھلے سال کی اسی مدت میں جی ڈی پی کاایک فیصد تھابہتر ہوکر 0.8 فیصد سے ہوگیا، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں بڑی کمی کی وجہ سے نان ٹیکس محاصل 22.6 فیصد گر گئے ،اگست میں مہنگائی 8.4 فیصد سے بڑھ کر ستمبر میں 9 فیصد اور اکتوبر میں9.2 فیصد ہوگئی، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔سٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی اور توازن ادائیگی سے متعلق بڑھتے ہوئے خطرات عالمی اور ملکی دونوں قسم کے عوامل کی وجہ سے ہیں۔دنیا بھر میں کووڈ کی وجہ سے رسد میں تعطل، قیمتوں پر دبا ؤاور توانائی کے نرخ تخمینے سے زیادہ بڑھ رہے ہیں تاہم مہنگائی قابو میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی کو سخت کرنا شروع کردیا۔مہنگائی میں اضافے کی ایک وجہ درآمدی قیمتوں میں توقع سے زیادہ اضافہ اور اس کے ساتھ طلب میں دباؤ بھی ہے ۔ ستمبر اور اکتوبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی توقع سے زیادہ رہا جس سے تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا اور بیرونی دباؤ سے روپے پر زیادہ بوجھ پڑا ہے ۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر تھا کہ مہنگائی کے دباؤکا مقابلہ کرنے اور نموکے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی معمول پر لانے کیلئے تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا اور 150 بیسس پوائنٹ اضافہ اسی کی جانب ایک قدم ہے ۔ حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں کے اہم رجحانات، امکانات اور اس کے نتیجے میں مانیٹری صورتحال اور مہنگائی کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ کیا۔ادھرہفتہ واربنیادوں پرمہنگائی کی شرح 1.07فیصد اضافہ سے 18.34فیصدکی ریکارڈسطح پرپہنچ گئی،ادارہ شماریات نے ہفتہ وارمہنگائی کے اعدادوشمارجاری کردیئے جس کے مطابق 17ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں کیلئے مہنگائی 18.62فیصدریکارڈکی گئی۔ 27اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ،10کی قیمتوں میں کمی اور11 کی میں استحکام رہا۔رواں ہفتے مرغی کی فی کلوقیمت میں 21روپے اضافہ ہوا،زندہ برائلرکی فی کلوقیمت 249سے بڑھ کر270روپے ہوگئی۔انڈے 3روپے درجن اضافہ سے 185روپے کی ریکارڈسطح پرپہنچ گئے ،اڑھائی کلوگھی کاکاٹن 30روپے مزیدمہنگاہوکر 969روپے کا ہوگیا،دال مونگ3روپے کلو،دال ماش 2 روپے 43 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی جبکہ مٹن،دہی،دودھ،بیف اوردیگراشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات کے مطابق چینی 4 روپے 24 پیسے فی کلو،ٹماٹر 8 روپے 5 پیسے فی کلو سستے ہوئے ، آٹا،ایل پی جی، دال مسور اور پیاز بھی سستے ہوئے ۔گذشتہ ہفتے 14 اشیاء کی قیمتوں میں کوئی ردو بدل نہیں ہوا۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں مزید اضافہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے سٹیٹ بینک کو فیصلہ واپس لینا چاہئے کیونکہ اس سے اس سے مجموعی طور پر معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا اور سرمایہ تک کاروباری برادری کی رسائی مزید مشکل ہوجائے گی۔ ایک بیان میں صدر لاہور چیمبرمیاں نعمان کبیر، سینئر نائب صدر میاں رحمن عزیز چن اور نائب صدر حارث عتیق نے کہاسٹیٹ بینک نے انفلیشن سے نمٹنے کے لیے درست طریقہ نہیں اپنایا، ڈسکاؤنٹ ریٹ میں 150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کاروبار کرنے کی لاگت کو بڑھا دے گا جس سے معیشت کے لیے بھی مسائل پیدا ہونگے ، سٹیٹ بینک کے فیصلے سے مالیاتی خسارے کو کم یا پھر انفلیشن پر قابو پانے میں مدد نہیں ملے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا نہیں ہوا، الٹا نئے سرمایہ کاروں کے لیے مشکلات پیدا ہونگی۔ اس وقت جب تجارت اور صنعت دونوں کو کسی خصوصی پیکج کی اشد ضرورت تھی، ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ ناقابل فہم ہے ۔،پاکستان میں پہلے ہی کاروباری لاگت بہت زیادہ ہے جبکہ سٹیٹ بینک نے بھی کاروباری برادری کی توقعات کے برعکس فیصلہ کیا ہے ۔ کاروباری برادری کو سستے سرمائے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کاروبار کو ترقی دیکر ملک کی معاشی بحالی میں کردار ادا کرسکیں۔