وزیر اعظم دو تین دن پہلے لاہور آئے اور ایک پروگرام میں صحت کارڈ کی تعریف کی۔نہ صرف کارڈ کی بلکہ ’’کارڈ ساز‘‘ کی بھی اور فرمایا کہ صحت کارڈ جیسی سکیمیں ہر وزیر اعظم نہیں شروع کر سکتا۔ نواز شریف کے لئے اتنی حد سے زیادہ تعریف اور وہ بھی عمران خان کے منہ سے۔کمال کی بات بلکہ اوج کمال کی بات ہے۔کیونکہ یہ صحت کارڈ نواز شریف نے مئی 2015ء میں شروع کیا تھا۔ایک جاننے والے سے ملاقات میں عمران خان کی اس مثبت ذہنی تبدیلی یا قابل تعریف رویے کی تعریف کی تو وہ بھنّا گئے اور بولے میاں کہاں رہتے ہو۔عمران خاں اس صحت کارڈ کی بات کر رہے ہیں جس پر پی ٹی آئی کا دو رنگا پرچم چھپا ہے۔حیرت سے پوچھا‘کارڈ کا رنگ بدلنے سے ’’کارڈ ساز‘‘ تو نہیں بدلتا‘وہ تو وہی رہتا ہے۔مزید بھنّا کر بولے جب اپنا رنگ چڑھا دیا تو ’’کارڈ ساز‘‘ بھی بدل گیا۔تبدیلی یہی تو ہے۔ویسے بھی نواز شریف کا صحت کارڈ کرپٹ تھا‘یہ والا دو رنگا ہے یعنی ایماندار ہے اور اس کی دوائوں میں صحت بخش اثرات زیادہ ہیں۔دیکھتے نہیں ساری قوم صحت مند ہو گئی ہے‘اتنی صحت مند کہ منہ بھر بھر کر’’دعائیں‘‘ دے رہی ہے۔یہ کہہ کر وہ رخصت ہوئے اور اپنی بھنّا ھٹ ہونے پر ہی چھوڑ گئے۔ ٭٭٭٭٭ نیا دو رنگا صحت کارڈ وہی ماجرا ہے جو گزشتہ کسی کالم میں بیان کیا تھا کہ عمران خان ہر کئے کرائے کام پر ’’تجدید افتتاح‘‘ یا ’’افتتاح ثانی‘‘ کی مہر لگا کر مہمات سر کر رہے ہیں لیکن کیا اس سے ماضی کے حکمرانوں کے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے؟اس سوال کا جواب اپنے وقت پر مل جائے گا۔ویسے بھی یہ سوال ’’کیو‘‘ میں ہے یعنی قطار میں اور قطار میں اس سوال کے آگے اور بھی بہت سے سوال قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔اسی لئے تو بہت سے احباب کی دعا ہے کہ عمران خاں کو مزید وقت دیا جائے تاکہ سوالوں کے جواب والی کھڑکی کھل سکے۔ذاتی طور پر مجھے اس سوال سے زیادہ دلچسپی ہے کہ نواز شریف نے جو 300 ارب لوٹے تھے یعنی چوری کر کے لندن لے گئے تھے۔ان کا کیا بنا ۔ پی ٹی آئی کے کسی بھی حامی سے یہ سوال پوچھو تو ناراض ہو جاتا ہے۔بھنّا جاتا ہے اور کچھ فتوے غداری وغیرہ کے صادر فرما کر رفو چکر ہو جاتا ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوتا‘مجھے امید ہے کہ عمران خاں اپنی چھ سات میعادیں وزیر اعظم کی پوری کر چکیں گے ،تو اس سوال کا جواب جانے سے پہلے ضرور دے جائیں گے۔فی الحال تو کسی کھاتے میں‘کسی میں اس کا کوئی اندراج ہے نہ ذکر۔ ٭٭٭٭٭ منی بجٹ کا بہت شہرہ ہے اور اس ’’پڑھے لکھے‘‘ دور میں بھی عالم یہ ہے کہ کئی افراد کو منی بجٹ کے معنے نہیں آتے۔ارے میاں‘عمران خاں کے بجٹ کا مطلب ہوتا ہے دو کے بجائے ایک روٹی کھائو اور منی بجٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک بھی نہ کھائو۔ وفاقی وزیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ہماری تو ساری کوشش ہی یہی ہے کہ عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہو۔ عام آدمی پر اثر نہ پڑنے والی بات سوفیصد سے بھی ایک درجے اوپر درست ہے۔ظاہر ہے عام آدمی کپڑے نہیں پہنتا‘روٹی نہیں کھاتا اور دال سبزی تو بالکل نہیں کھاتا‘نہ وہ بیمار ہوتا ہے کہ دوا خریدنی پڑے‘نہ اس کے لئے ٹافی یا کھولنے کی ضد کرتے ہیں بلکہ چار چھ مہینے اور ٹھہر جائیں‘وہ کپڑے پہننے کی ضد بھی نہیں کریں گے۔عام آدمی کو بجلی کی ضرورت ہے نہ وہ گیس کا محتاج ہے۔اسے کہیں آنا جانا بھی نہیں ہوتا نہ اس کے گھر کوئی آتا ہے نہ چائے پانی کا خرچ اٹھے۔یا پھر عام آدمی سے مراد جہانگیر ترین‘ فیصل واوڈا‘ زلفی بخاری‘ شاہ فرمان‘ علی امین گنڈا پور‘ سیٹھ ،وڈیرے اور حریم شاہ سے ہو گی۔واللہ اعلم ٭٭٭٭٭ یہ تاثر کہ حکومت مکمل طور پر آئی ایم ایف کی غلام بن چکی ہے‘مسلم لیگ کے رہنما مفتاح اسماعیل نے رد کر دیا ہے۔غلط تاثر کو رد کرنا ہی چاہیے۔اچھی بات اچھی ہے‘بری بات بری۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وزیر صاحبان کہتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے پابند ہیں لیکن یہ کیسی شرائط ہیں کہ بچوں کے دودھ پر‘دالوں پر‘ تیل کے بیجوں پر اور ہر شے پر تو ٹیکس لگائے جاتے ہیں لیکن پراپرٹی لینڈ اور رئیل سٹیٹ کو مسلسل ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے۔ مفتاح صاحب کا پھر یہی ہوا کہ ہر فیصلہ آئی ایم ایف کا نہیں ہوتا‘کچھ فیصلے حکومت خود بھی کرتی ہے۔خدایا شکر‘ابھی ہم مکمل غلام نہیں بنے‘تھوڑی بہت آزادی باقی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اسلام آباد کے ادارے پی آئی سی ایس ایس نے رپورٹ دی ہے کہ اس سال دہشت گردی مزید بڑھ گئی۔پچھلے سال کے مقابلے میں 56فیصد حملے زیادہ ہوئے۔سکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں 66فیصد اضافہ ہوا۔سب سے زیادہ حملے بلوچستان میں کئے گئے۔ کچھ ہی ہفتے پہلے ایک مشیر (نام یاد نہیں) سے پوچھا گیا کہ عالمی اداروں کے مطابق ملک میں کرپشن ریکارڈ حد تک بڑھ گئی ہے‘کئی سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔تو مشیر صاحب نے بتایا کہ اس کی ذمہ دار ماضی کی کرپٹ حکومت ہے‘حال کی ایماندار حکومت صرف پرانے منصوبوں پر تختیاں لگانے بلدنے کی ذمہ دار ہے اور اس بات کی بھی کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے۔ ٭٭٭٭٭ بے نظیر سپورٹ پروگرام کی انچارج ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں ادرک کی پہلی کامیاب کاشت کا افتتاح کر دیا ہے۔لگے ہاتھوں گندم اور گنے کی کاشت کا افتتاح بھی کر دیں۔اب تک کوئی کاشت کامیاب نہیں ہوئی‘سب کی سب ٹھچر نکلیں۔ وزیر آبپاشی سے درخواست ہے کہ موقع نکال کر دریائے سندھ کا بھی افتتاح کر دیں۔بحیرہ عرب کا افتتاح علی زیدی کر دیں گے۔