قصاب کی دکان سامنے تھی مگر قصائی غائب تھا یعنی ابھی دوکان پر پہنچا نہیں تھا۔اس دوکان اور اس قصاب سے میرا گوشت خریدنے کا پہلا تجربہ تھا۔یہ دوکان میرے گھر سے کافی دور تھی مگر دوست احباب کے کہنے پر یا سفارش کہہ لیجیے اس دوکان پر جانے کا ارادہ کیا تھا۔گوشت کی قسم تو ایک ہی ہوتی ہے مگر اہل ِگوشت اور ان کے پیروکاروں نے اسے مختلف نام دے رکھے ہیں جو اصل میں مذبوح کے جسم کے اعضا پر رکھے گئے ہیں۔ہم خود گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں لہذا ان اعضا کا نام لے کر گوشت خریدنا ہمارے لیے ایک مشکل کام ہوتا ہے۔گوشت خور جانوروں کو الف سے یے تک کھا جاتے ہیں اور تو اور اوجھڑی بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ہمارے انگریز قوم سے بہت سارے اختلافات ہیں مگر جب ہمیں پتہ چلا کہ اوجھڑی کو وہ اوجھڑی نہیں کہتے تو ہم ان کی نفاست اور ادب آداب کے قائل ہو گئے۔کسی نے کہا جب اوجھڑی انگریزی لفظ ہے ہی نہیں تو وہ اس کو اوجھڑی کیوں کہیں گے۔ہم نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ وہ اوجھڑی کو اوجھڑی نہیں کہتے ہمارے لیے یہی کافی ہے۔یہی نفاست ہمیں کشاں کشاں اس قصاب کی دوکان پر لے گئی۔بتایا گیا کہ قصاب قصاب لگتا ہی نہیں ہے گویا اوجھڑی اوجھڑی لگتی ہی نہیں۔ موڑ مڑے تو سامنے قصاب کی دوکان تھی۔اگر قصاب اپنی دوکان پر یا اس دوکان کی بنی ہوئی تھڑی پر دائیں پاؤں کے انگوٹھے اور پاؤں کی بڑی انگلی کے درمیان چھری نہ سنبھالے ہوتا اور موڑ مڑنے پر ہمیں نظر آ جاتا یا ہجوم میں چلتے پھرتے ایک نظر ہی اس پر پڑ جاتی تو گمان بھی نہ ہوتا کہ وہ قصاب ہے۔وہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا مگر چہرے مہرے سے بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں یا اس کی تعلیم واجبی سی ہے۔جب تک خاموش رہتا تب تک کسی کو معلوم نہ پڑتا کہ اس نے کالج یونیورسٹی یا کسی درسگاہ کا منہ تک نہیں دیکھا۔موڑ مڑنے سے پہلے وہ کافی لمبا سفر طے کر کے آتا تھا۔جس بس سٹاپ سے وہ میٹرو پر سوار ہوتا تھا وہ وہاں کے سارے مسافروں سے زیادہ خوش پوش تھا۔لوگ تیزی سے میٹرو پر سوار ہوتے، ایک دھکم پیل سے ایک دوسرے کے اوپر گرتے اور ایک دوسرے سے بچتے بچاتے بس میں سوار ہوتے۔کنڈکٹر کو سو پچاس کا نوٹ پکڑاتے تو بقایا لینے کی خاطر ہاتھ دراز کرتے کنڈکٹر پاس سے گزرتا بقایا ان کے ہاتھ پر ایسے رکھتا جیسے صدقہ خیرات کر رہا ہے۔کوئی کنڈکٹر کو اونچی آواز میں بلاتا اور اپنے سٹیشن یا بس سٹاپ کا نام لیتا۔کوئی کنڈکٹر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا اور پوچھتا کہ فلاں سٹاپ کتنی دور ہے۔ابھی اور کتنا فاصلہ باقی ہے۔وہ ان ساری باتوں اور معاملات سے جیسے بے نیاز تھا۔ اس کی دوکان شیشے کی طرح چمک رہی تھی مجھے لگا کہ اس کے بارے میں جو باتیں بتائی گئی تھیں وہ درست ہیں۔گوشت کی دوکانوں کی بدبو جو ایسی جگہوں کا سکہ رائج الوقت ہے وہاں نہیں تھی۔ایسی دوکانوں کی ایک اور وجہ شہرت مکھیوں کا غول در غول ایک جگہ پر مقیم ہونا ہوتا ہے۔کہیں ایک مکھی بھی نہیں تھی۔خودکار شیشے کے دروازے نے ان کا داخلہ بند کیا ہوا تھا۔میں نے دوکان کا اندروں دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دیواریں آئینے کی طرح چمک رہی تھیں۔سامنے والی دیوار ہر اہلاً و سہلاً مرحبا لکھا تھا۔بلکہ خط ِنسخ نے ایک بہار کا سامان پیدا کیا ہوا تھا۔عربی زبان کا رسم الخط دیکھ کر مجھے قصاب سے ایک ان دیکھی محبت ہونے لگی۔دائیں جانب خوش آمدید، بائیں جانب جی آیاں نوں اور ایک طرف پخیر راغلے لکھا تھا۔ایک طرف وش آتکے اور بھلی کری آیا جگمگ کر رہا تھا۔باہر خود کار دروازہ اور دیواروں پر ان جملوں سے مرعوب ہوتا چلا گیا۔دوکان قصاب کی تھی اور ادب آداب ایک دانشور کے سے تھے۔ دوکان کے عین سامنے ایک خوش پوش اور چاق و چوبند گارڈ کھڑا تھا۔اس کے لباس کی نفاست ایسی تھی کہ نظر پھسل پھسل جاتی تھی۔اس کی آنکھیں عقاب کی طرح روشن اور چہار اطراف پر گڑی ہوئی تھیں۔ اب مجھے احتمال ہونے لگا کہ یا تو دوست احباب سچ کہتے تھے یا یہ گوشت کی دوکان ہی نہیں ہے۔کوئی ایک شے بھی ایسے نہیں تھی جس پر شبہ ہوتا کہ یہاں گوشت دستیاب ہو سکتا ہے۔یہ تو شیشے کی دوکان ہے۔ضرور مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے وہاں سے نکلنے کا پکا ارادہ کر لیا کہ دوست احباب محض بکواس کر رہے تھے۔اس پر تو کسی عطار کی دوکان کا شبہ ہوتا ہے۔باوردی گارڈ سے پوچھا تو اس نے ذرا سا سر کو خم دے کر کہا اور تصدیق کی کہ یہ گوشت کی ہی دوکان ہے۔ دوکان کا بیروبی منظر اس سے بھی زیادہ متاثر کن تھا۔آس پاس کی دوکانوں کے دروازے کھلے تھے جہاں سے ایک شور سیلاب کے ریلے کی صورت اندر داخل ہو رہا تھا۔جس سے دوکانوں میں کسی کو کان پڑی آواز تک سمجھ نہیں آ رہی تھی۔اس شور میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ نے اور بدمزگی پیدا کی ہوئی تھی۔دوکانوں کی دیواروں پر خوبصورت جملوں اور خیر مقدمی الفاظ کی بجائے ریٹ لسٹیں آویزاں تھیں۔ان ریٹ لسٹوں پر جگہ جگہ کراس کے نشان لگے ہوئے تھے جس کا مطلب واضح تھا کہ دوکاندار اپنی مرضی کے ریٹ لگاتے ہیں اور مرضی سے ردوبدل کرتے ہیں۔ میں واپس اپنی دوکان پر واپس آ گیا۔بازار کی باقی ساری دکانیں دیکھنے کے بعد مجھے یہ دوکان اپنی محسوس ہونے لگی تھی۔مجھے دوست احباب کے کہے کا یقین آ رہا تھا کہ جو انہوں نے کہا سچ کہا تھا۔مجھے خود پر ندامت سے محسوس ہوئی کہ ایسی بدگمانی کس قدر ناروا تھی۔اچانک خود کار دروازہ کھلا اور قصاب دوکان میں داخل ہوا۔باہر کھڑا گارڈ آگے بڑھا اس نے دوکاندار کے سامنے گوشت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے والے ضروری آلات اس کے سامنے رکھے۔ٹوکے کی دھار چمکنے لگی۔اس نے چھری پاؤں کے انگوٹھے اور بڑی انگلی کے درمیان پھنسائی۔اس کی ہیئت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔مختلف تحریریں قصاب کے پیچھے چھپتی جا رہی تھیں۔میں نے پہلے دوکان کو دوبارہ دیکھا اور ایک نگاہ ِغلط انداز اس قصاب پر بھی ڈالی۔اوجڑھی کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں مجھے یاد ہی نہیں آ رہا تھا۔