آج ہم کہاں کھڑے ہیں 1947ء سے آج تک ہم نے کیا حاصل کیا یا کر سکے خدا کے بندو کتنا مشکل ہے۔ 76 سالوں میں کتنا ہیجان برپا رہا اور بدقسمتی سے آج بھی ہے کیا نہیں ہے اس ملک میں پہاڑ ہیں ریگستان ہیں میدان ہیں دنیا کی دلکش وادیاں ہیں بہترین موسم ہیں کس نے اس ملک کو ماورائی طاقتوں کی تخلیق قرار دیا کہ یہ خاص مقاصد کے لیے بنایا گیا کیا وہ مقاصد حاصل ہوئے؟ 80 کی دہائی میں پہلے کمیونسٹوں کو پہاڑ بنا کر پیش کیا گیا پھر اس کی ہمارے ہمسائے میں پیش قدمی کو روکنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا گیا نہ سوچا گیا کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے بظاہر یہ دو عالمی طاقتوں کی لڑائی تھی ایک جو غالب تھا اس کا انجام ہر صورت ہونا ہی تھا بھلے ہم ساتھ نہ بھی دیتے دوسری طاقت کا بھی وجود ناگزیر تھا پوری دنیا خاموش تھی مگر ہم ایسے فتوحات کے دعوے کر رہے تھے کہ دنیا ڈر گئی ہم سے جھوٹے وعدے کیے جا رہے تھے جس کے لیے ہم نے سب کچھ قربان کر دیا ان کا آج رویہ ہمیں کیا پیغام دے رہا ہے مشرف کے بعد ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے بظاہر ہم عالمی پھڈوں کا حصہ نہیں بننا چاہتے مگر ان فیصلوں کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ آسانی سے مندمل ہی نہیں ہو رہے اسی وقت سے دنیا نے ہم پر معاشی دروازے بند کر دیئے یہی تلخ حقیقت ہے ہم وہ دروازے کیوں کھلوا نہیں پا رہے ہم قرضوں میں جکڑے جا چکے ہیں یہ معاشی تنہائی ہمیں دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے ہمارے اندرونی نظام میں خوفناک خلیج اور تقسیم صاف عیاں ہے کوئی ایک بھی ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیوں اتنے جذباتی ہیں کیا اپنے جذبات ملک سے مقدم ہیں پتہ ہے آج معاشی بحران نے کتنی تباہی پھیلا دی اب تو آخری حدود آچکیں غریب تو مر گیا اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتے وہ زندہ رہنے کے لیے خوراک و ادویات تک محدود ہو چکا ہے یہاں سے سرمایہ دار کیوں بھاگا ظاہر ہے سرمایہ دار تحفظ اور مستقبل کو مدنظر رکھتا ہے ہم نے ہر اس شخص پر شک کیا جو یہاں کچھ کرنا چاہتا تھا بہت سارے سرمایہ دار محض اس الزام کیوجہ سے دلبرداشتہ اور ڈر کر بھاگ گئے کہ یہ یہاں سرمایہ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لگا رہا ہے یہ پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس کو ختم کرنا چاہتے ہیں یہ کافروں کے ایجنٹ ہیں سرعام بھڑکیں لگائی جاتی کہ ہم انکا بائیکاٹ کریں گے راستہ روکیں گے چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے یہ کیا تھا بلکہ آج بھی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں لاہور کراچی اسلام آباد اور دیگر شہروں کے بڑے تاجروں نے ملک سے سرمائے سمیت نکلنے کا فیصلہ کیا بہت کثیر تعداد کو یورپ برطانیہ امریکہ کینیڈا دھڑا دھڑ فیملیز سمیت ویزے مل رہے تھے بلکہ ان کے ملازمین تک کو بھی دیئے گئے کسی نے اس طرف توجہ دینا مناسب ہی نہیں سمجھا پھر اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا حالانکہ ایک کاروباری شخصیت ہوتے ہوئے انہوں نے بھی کچھ نہ کیا ایسا کیوں ہوا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ چند برسوں میں اس ملک میں کیا ہونے والا ہے۔ انرجی کا بحران سر فہرست تھا کیا کوئی کوششیں کی گئی کہ اس بحران کا حل نکالا جائے آج بھی دیکھ لیں بجلی کتنی مہنگی ہو چکی ہے عام گھریلو صارف کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ 200 یونٹ سے اوپر کا بل 10 سے 15 ہزار تک پہنچ چکا ہے ۔کمرشل کا کیا عالم ہوگا؟ لوگ کیسے کاروبار کریں گے کیسے انڈسٹری چلے گی چھوٹی موٹی چیزیں جو عام استعمال کی ہیں وہ ہمیں چائنہ فراہم کر رہا ہے یعنی اس ملک میں وہ بھی ممکن نہیں رہیں۔ پٹرول کتنا مہنگا ہو چکا ہے اس سے وابستہ کتنے غریب گھرانے بے روزگاری کی وجہ سے تباہ ہو گئے غربت کی وجہ سے لاقانونیت ہر طرف پھیل گئی کیا کسی جگہ سوچا جا رہا ہے کہ اب انتہا ہو گئی ان سب کو اکٹھا ہونا چاہیے کم از کم یک نقاطی معاشی ایجنڈے پر ہی ہو جائیں۔ چند سال کے لیے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ دیں جب تک ایسا نہیں ہوگا یہ ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا یہ خلیج خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے ایک اندر ہوتا ہے دوسرا باہر اور پھر باہر والا اندر اور اندر والا باہر ۔کیا ملک ایسے چلتے ہیں دنیا ان کے ساتھ کیسے چلے گی ان کی اس روش نے ادارے تباہ کر دیئے کرپشن اقرباء پروری جاری ہے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں دنیا معاشی دروازے اس وقت کھولے گی جب ہم ملک کے لیے اکٹھے ہوں گے اپنے اداروں کی اصلاح کریں گے۔ آج تک یہ الیکشن کمیشن کو ہی خود مختار اور آزاد ادارہ نہ بنا سکے جس پر ان سب کو یقین ہو۔ الیکشن کمیشن ہی اس ملک کا اہم ترین ادارہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مجید نظامی نے ایک شخصیت کو مرد حر قرار دیا تھا جو سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ کے طور پر مشہور ہیں آجکل پاکستان کے کلیدی ترین عہدے یعنی صدر پاکستان ہیں وہ ان سب کو اکٹھا کرسکتے ہیں ایک ایسے معاہدے کیطرف لیجا سکتے ہیں جس سے پاکستان کے ترقی کی منازل طے کرنے کی طرف رواں ہو سکتا ہے یہ صرف پاکستان کے لیے غریب پسے ہوئے بے بس طبقے کے لیے اپنی سیاست چھوڑ دیں ایک دوسرے کو معاف کردیں اور آگے بڑھیں دنیا کو دکھائیں یقین دلائیں کہ ہم بدل چکے ہیں ہم پر معاشی دروازے کھول دیجیئے دنیا کیوں نہیں سوچے گی ضرور کندھا دے گی۔