مرشد کا کہنا ہے کہ دوستی ہمیشہ پاگلوں سے کرو۔مرشد کی تمام باتیں اقوال ایسے ہوتے ہیں جو پہلی نظر میں سر سے گزر جاتے ہیں اور جب ان کے مفہوم کا پتہ چلتا ہے تو سیدھا دل میں جا کرتی ہیں۔اب یہی قول لیں اور سوچیں بھلا کوئی پاگلوں سے بھی دوستی کرتا ہے۔مرشد کا اسی قول سے متعلق ایک اور قول ہے کہ سمجھدار آدمی کو دوست نہ بنائیں۔اب یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو ہماری زندگی کے اصول و ضوابط کی ضد لگتی ہیں۔مرشد کے مریدان میں میری طرح کے بہت سارے " خلیفے" ہوتے ہیں وہ آمنا و صدقنا کہہ کر بات یا قول کو تسلیم کر لیتے ہیں۔صرف تسلیم ہی نہیں حرز ِجان بنا لیتے ہیں۔اور اپنی رہتل کے حساب سے اس جملے کو ادا کریں تو اس بات کو تعویذ بنا کر عمر بھر گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ زیادہ تر اسی ٹائپ کے مریدان سے پیر اور مرید دونوں کا کام چلتا ہے کہ زبان فارس میں کسی حکایت میں بیان کیا گیا ہے کہ پیران نمی پرند مریدان می پراند کہ مرید اڑتے تو نہیں مگر مریدان مانتے ہیں کہ وہ اڑتے ہیں۔یوں مرید کا پیر عشق بڑھتا جاتا ہے اور پیر کی پیری۔ مگر کچھ مریدان الف جیسے ہوتے ہیں۔الف بھی ہمارا پیر بھائی ہے اور اسے مرشد کی باتوں کو سمجھنے کا ملکہ حاصل ہے۔جب مرشد گفتگو ختم کرتے ہیں اور آرام کی خاطر اپنے حجرہ میں چلے جاتے ہیں تو ہم ایک منڈلی کی صورت میں الف کو گھیر لیتے ہیں۔اپنے آس پاس اتنا مجمع دیکھ کر اس پر آمد کا نزول جاری ہو جاتا ہے۔آج اس قول کو جو تشریح اس نے کی اس کی مرشد کی باتوں کی گہرائی کا بھی اندازہ ہوا اور مرشد کے ساتھ اس کے بھی قائل ہو گئے۔ سب سے پہلے ہمارے دماغ کا خناس ہمیں مجبور کرتا ہے کہ سوال یا بات کا آغاز کریں۔اب بھی یہی ہوا اور ہمارے پہلے ہی سوال نے سب کے کان کھڑے کر دیے۔مرشد کے دربار پر ان کی گفتگو اور پھر الف کی تشریح و توضیح کے بعد چائے پیش کی جاتی ہے۔الف نے چائے طلب کی تو ہم سارے خلیفوں نے ایک ساتھ اس خلیفے کی طرف دیکھا جس نے ابھی یہاں سے اٹھ کر چائے بنانی تھی۔وہ بھی پورا خلیفہ تھا وہ بھی پہلے روحانی بھوک مٹانا چاہتا تھا بعد میں چائے وائے کا انتظام کرنا تھا۔وہ بڑی مشکل سے اٹھا اور ایک کپ دھواں چھوڑتی چائے کا لے آیا۔الف نے چائے کا گھونٹ بھرا اور مرشد کے قول کے بارے میں کہنے لگا۔ اس نے کہا اس قول کی صداقت کے پیچھے یہ نکتہ ہے کہ سمجھدار آدمی کسی انسان کے کام آنے کے قابل نہیں ہوتا۔پاگل آدمی پہلی درخواست پر مدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ہم سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ اس کو چائے کے کپ بعد از گفتگو ہی پیش کرنا چاہیے تھا مگر الف نے بات جاری رکھی اور کہا کہ سادہ ذہن مثالوں پر بہت خوش ہوتا ہے اور اس کو مثالوں سے بات جلدی سمجھ بھی آ جاتی ہے۔الف نے بتایا کہ چند دن پہلے اسے ایک سرکاری محکمے کے ایک نیک آدمی سے کام پڑ گیا۔نیک آدمی تھا سو اس کی شہرت بھی بہت اچھی تھی۔مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ سمجھدار آدمی ہے۔تب میرے کان کھڑے ہوئے اور یقین ہو گیا کہ اس نیک آدمی سے کسی بھلے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔مگر کرتا کیا نہ کرتا اب تو کیس اس کی میز پر تھا۔جب میرا نام پکارا گیا تو اس نیک آدمی یعنی افسر نے کہا کہ کام آپ کا بالکل جائز ہے مگر آپ کا کام باری آنے پر ہو گا۔پوچھا کہ باری کا امکان کب تک ہے تو وہ انتہائی سمجھداری کا منہ بنا کر بولا اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔کیس میں کوئی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کا شائبہ ہے۔سمجھدار آدمی بولا بالکل نہیں۔میں نے اس کی طرف ملتجی آنکھوں سے دیکھا تو بوکھلا سا گیا۔نیک آدمی تھا مگر ساتھ سمجھداری کی پخ لگی ہوئی تھی۔دوبارہ گویا دوبارہ کسی وقت آئیے پھر دیکھیں گے۔اب دوبارہ کب آتے اس کا وہ کچھ نہیں بتا رہے تھے۔مرتا کیا نہ کرتا۔اسی نیک آدمی کے کمرے کے باہر ہجوم میں سے ایک آدمی نے میری حالت دیکھ کر ایک اور کمرے کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے دوسرے کمرے کی طرف ہو لیا۔معلوم ہوا کہ یہ نیک آدمی سے بھی بڑا افسر ہے۔اس کی شہرت پاگل آدمی کی ہے۔کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دفتروں میں پاگل آدمی کا کیا کام ہو سکتا ہے۔اب ذہن میں ایک پاگل آدمی کا تصور لیے بیٹھا تھا کہ ملازم نے میرا پکارا۔میں سوچ رہا تھا کہ اندر کوئی سرخ آنکھوں والا آدمی ہو گا۔بال بڑھے ہوں گے۔قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے ہوں گے اور دفتر میں ہی "اللہ ھْو ھْو" کا ورد کر رہا ہو گا۔ پھر سوچا دفاتر میں ایسے لوگوں کا کیا کام۔یہاں تو سمجھدار لوگوں سے ہی کام چلتا ہے۔کمرے میں داخل ہوا تو ایک عام آدمی سے سامنا ہوا۔مدعا بیان کیا اور ایک لحظے میں اس پاگل آدمی نے کام کر دیا۔ الف بولا سمجھدار آدمی پہلے دائیں دیکھے گا پھر بائیں دیکھے گا پھر کسی راہ کا انتخاب کرے گا۔پاگل آدمی خود راستہ بنتا ہے۔جہاں پاؤں رکھتا ہے وہاں دیپ جل اٹھتا ہے۔ پاگل آدمی رسک لیتا ہے کہ اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ اونچی جگہ سے چھلانگ لگائے گا تو اس کے زخمی ہونے کے سو فیصد چانس ہیں۔سمجھدار آدمی ایسے کام کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا۔سمجھدار آدمی قاعدے کلیے کو دیکھ کر بات کرے گا کہیں سے گنجائش کا امکان نکلتا دیکھے گا تو کسی کام کے سلسلے میں ہاں کرے گا۔اس کے برعکس دنیا میں کام پاگل لوگوں سے چل رہے ہیں اگر کسی غریب کا بھلا ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے ضرور کوئی پاگل ہو گا جو سسٹم سے لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہو گا۔اور تو اور کتنے نابغوں کو دنیا نے پاگل سمجھا۔ الف نے کہا اب معاشرہ سمجھداروں سے بھرا پڑا ہے۔سمجھدار آدمی کبھی رسک نہیں لے گا۔بزدل آدمی کبھی جنگ نہیں کرے گا۔ اب ایک کوئی آدھ پاگل ہی رہ گیا ہے۔ سوال ہوا کہ ہمارا مرشد سمجھدار ہے یا پاگل۔الف کو معلوم تھا کہ مرشد تو اپنے دور ِاقتدار میں ہر سائل کی فائل اپروو کر دیتا تھا۔سمجھدار آ کر کہتے کہ اس کام کی رولز اجازت نہیں دیتے تو مرشد کہتا رولز چینج کر دو۔ الف نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور روحانی مسرت سے لبریز ہو کر بولا مرشد پاگل ہے۔