بظاہر ''مستقل نگران حکومت'' کے آتے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلے سے ڈرافٹ شدہ حکم نامہ جاری کردیا ہے جس میںپنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کو سختی سے پابند کیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے تبادلوں، تعیناتیوں اور بھرتیوں پر پابندی عائد کردی جائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حکم نامہ وصول ہوتے ہی صوبائی حکومتوں کے شعبہ جات کے متعلقہ سیکرٹریز نے اپنے شعبہ جات کو الیکشن کمیشن سے بھی سخت ہدایت جاری کی ہے کہ خبر دار آئندہ کسی قسم کا تبادلہ، تعیناتی یا بھرتی نہ کی جائے۔ ابھی یہ حکم نامہ کہیں راستے میں ہی ہوگا کہ صوبائی حکومتوں نے سیکرٹریز، پولیس افسران اور دیگر صوبائی شعبہ جات اور محکموں میں تبادلوں اور تعیناتیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب الیکشن کمیشن کی مرضی و منشاء کے مطابق ہورہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جن محکموں کے ذریعے سیاسی انجینئر نگ سمیت دیگر قبیح کام سر انجام پاسکتے ہیں وہ محکمے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔ بلکہ وہاں معمول سے زیادہ تبادلوں اور تعیناتیوں کا رحجان دیکھا جا رہا ہے۔ اور جن محکمہ جات کا سیاست سے دور دور کا تعلق نہیں ان پر ریاستی جبر کی تلوار لٹکادی گئی ہے۔ عوام میں یہ قوی تاثر پایا جانے لگا ہے کہ جو محکمہ جات حکومت کا حکم نہیں مانتے وہ دراصل خود حکومت ہوتے ہیں اور جو محکمہ جات حکومت کے احکام کے تابع ہوتے ہیں اْنہیں محکوم محکمہ جات کہا جاتا ہے۔ ان ’محکوم‘ محکموں میں ایک شعبہ اعلیٰ تعلیم کا بھی ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ یوں توبانی چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان جنابِ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن اور بانی چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن جنابِ پروفیسر ڈاکٹر محمدنظام الدین کے بعد ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ لیکن گزشتہ چند سال سے یہ شعبہ صوبائی حکومتوں کے لئے آسان ہدف ثابت ہوا ہے۔ حالیہ لہر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک حکم نامہ جاری کیاہے۔ جس کی روح کو سمجھے بنا آگے پنجاب کے صوبہ بھر کی سرکاری جامعات کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ آئندہ بھرتیوں سے گریز کریں۔حالانکہ اٹھائیس جون 2013ء کو محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں واضح انداز میں کہا گیا تھا کہ چونکہ جامعات خود مختار ادارے ہیں اِس لئے تبادلوں، تعیناتیوں اور بھرتیوں کے حوالے سے پابندی کا اطلاق یونیورسٹیز پر نہیں ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں نگران حکومت آئندہ چھ ماہ، سال یا شاید دو سال کے لئے مستقل حکومت نظر آرہی ہے۔ اب جب خود گورنر پنجاب سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک خط کے ذریعے یہ واضح کرچکے ہیں کہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی اِس لئے وہ الیکشن کا شیڈول نہیں دے سکتے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر میں آچکا ہے جہاں ایک نامعلوم دہشت گرد پولیس کی وردی میں مسجد میں داخل ہو کر خود کو بم سے اْڑا دیتا ہے اور سو سے زائد نمازی جامِ شہادت نوش کرلیتے ہیں۔ ٹھیک اگلے دن تھانہ مکڑوال میں مسلحہ دہشت گرد دھاوا بول دیتے ہیں مگر ایس ایچ او دیگر پولیس افسران و اہلکاران کے ساتھ مل کر اْن کا حملہ ناکام بنا دیتا ہے۔ دہشت گردی کی نئی لہر میں یقینی طور پرضمنی یا جنرل الیکشن مسقبل قریب میں ہوتے نظرنہیں آرہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدمِ استحکام، مہنگائی، معاشی بدحالی سمیت دیگر قباحتوں کی روشنی میں نگران سیٹ کم از کم ایک سال یا دو سال تک چلتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ یہ خلاف ِ آئین ہوگا اب اگر ملک میں جاری صورت حال جوں کی توں رہتی ہے تو جامعات پر تبادلوں، تعیناتیوں اور بھرتیوں پر پابندی کیوں؟ حالانکہ جامعات ملک کے خود مختار ادارے ہوتے ہیں۔اگر ہم نے اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کی اور جامعات کو بھی بیوروکریسی کی نظر کردیا تو ہم معاشی زبوں حالی کی طرح تعلیمی زبوں حالی میں گر جائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے جہاں استاد اور تعلیم کو عزت نہیں دی گئی وہ ممالک صفحہ ِ ہستی سے مٹ گئے۔ حیران کن طور پر جب بھی کوئی سیاسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے جامعات کو نشانہ بنایاجاتا ہے۔ ہم تعلیم دشمن اقدامات کب تک اْٹھاتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنی جامعات کو بیوروکریسی کا غلام یا حکمرانوں کے مرضی و منشاکے مطابق سیاسی اندازمیں چلانے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ ہم اپنی جامعات کو طاقتور بنانے کی بجائے ہر پل اِس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح وائس چانسلرز کے اختیارات پہ قدغن لگاکر جامعات میں بیوروکریسی کی مداخلت بڑھائی جائے۔ کسی طرح وائس چانسلرز سے کلرکوں جیسا برتاؤ کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں جب ہم خود اپنی جامعات کو سیاسی انداز میں ڈیل کریں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی جامعات میں اعلیٰ دماغ پیدا کرسکیں جو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوں؟ ہم نے پہلے ہی اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔یعنی جن جامعات میں بھرتیوں کا عمل مکمل ہوچکا ہے، محض سلیکشن بورڈ اور سینڈی کیٹ کے اجلاس منعقد ہونے تھے، اْن کاکیا قصور ہے؟ کیا حکمرانوں کو ذرا سا بھی احساس ہے کہ جامعات میں ایسوسی ایٹ پروفیسراور پروفیسرز کی تعیناتیوں کے لئے رپورٹس ملکی اور غیر ملکی پروفیسرز سے منگوائی جاتی ہیں۔ محض اسی ایک کام میں کئی ماہ اور کئی سال لگ جاتے ہیں۔ جب روپورٹس واپس متعلقہ یونیورسٹی میں پہنچتی ہیں، پھر سلیکشن بورڈز اور سینڈی کیٹ کی منظور ی کے بعد تعیناتی کی جاتی ہے۔ یہ ایک صبر آزما طویل عمل ہے۔اب جس اسسٹنٹ پروفیسر نے ایسوسی ایٹ اور جس ایسوسی ایٹ نے پروفیسر بننا تھا اور جن کی روپورٹس 23جنوری سے قبل آچکی تھیں، اْن کا کیا قصور ہے؟ تعلیم کا پہیہ رک جائے گا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جامعات میں 23جنوری سے قبل کے اشتہارات پر تعیناتیوں اور بھرتیوں کی فوراََ اجازت دی جائے۔ چاہے 23جنوری کے بعد پابندی برقار رکھی جائے۔ کچھ یار لوگوں کا کہناہے کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب جو خود بین الاقوامی اداروں کا تجربہ رکھتے ہیں وہ یقین اس معاملے میں مثبت اور کلیدی کردار ادا کریں گے۔چلیں دیکھئے اْمید پر دنیا قائم ہے!