منڈی آلے ایک انفارمل یعنی غیر رسمی تنظیم ہے جس کا نہ کوئی عہدیدار ہے نہ منشور نما سی کوئی شے۔یہ اپنی مٹی اور ایک بوباس رکھنے والوں کا گروپ ہے۔اس کے ممبران آپس میں صرف منڈی یعنی منڈی بہاؤالدین کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایک دفعہ ایک غیر ملک میں واش روم کی صفائی پر مامور آدمی میں اپنی ماں بولی اور اپنے مخصوص بار یا جانگلی لہجے کی خوشبو آئی تو ہم اس سے باتوں میں ایسے مگن ہوئے کہ وقت اور اپنے ہمراہیوں کی طرف دھیان ہی نہ گیا۔وہ وائپر سے واش روم کا فرش صاف کیے جا رہا تھا اور خوش ہو کر پوچھنے لگا آپ واپس منڈی کب جائیں گے۔اس نے یہ نہ پوچھا کہ پاکستان کو کب واپسی ہے۔ آپ کا ایک قہقہہ ایک اچھا شعر اور اپنے علاقے کا ایک آدمی آپ کی صبح کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔یہ بات بھی اسی گرائیں سویپر نے کہی تھی۔کرنل محمد خان اپنی خود نوشت تنگ آمد بجنگ میں لکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں ان کی ڈیوٹی مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں تھی۔ایک دفعہ آدھی رات کے وقت صحرا میں آگ سینکتے چند سپاہی آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے کہ اچانک ایک سپاہی نے ایک ہاتھ کان پر رکھ کر اونچی آواز میں ماہیا الاپا۔(ویسے ماہیا سچ مچ گایا نہیں الاپا ہی جاتا ہے)۔ وردی ڈھولے دی وچ بصرے رہ گئی اے لفٹین محمد خان نے اپنی جیپ روکی اور مسکرائے سپاہی بھی مسکرایا کہنے لگا صاحب اپنا گرائیں لگتا ہے۔ ان گرائیوں کا ایک اکٹھ خوبصورت شاعرہ زیب النسا واثق نے ایک مقامی ہوٹل میں کیا۔معلوم نہیں تھا کہاں کہاں سے منڈی آلے آ رہے تھے۔یہ نوجوان خواتین و حضرات تھے۔ویسے یونیورسٹی کی طالبہ کو خواتین کے زمرے میں شامل کرنا انتہائی بد تہذیبی ہے۔طلبا کو حضرات کہنا عین شرع مطابق ہے کہ ان میں کئی " حضرت "ہوتے ہیں لہذا حضرات پر اعتراض سجتا نہیں۔ ان طالبات میں کوئی ایچ آر اور کوئی ویڈیو گرافی میں آنرز کر رہی تھی۔ البتہ حضرات اورینٹل کالج میں شعر کی دنیا کو محور بنائے بیٹھے تھے۔نوجوان شاعر نعیم رضا بھٹی وہاں تصوف کا کورس کر رہے ہیں۔فراق نے سچ کہا تھا حدیں حسن و محبت کی ملا کر قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں منڈی کے نوجوان شعرا نے اپنے شہر اور علاقے کا نام بنایا ہے ورنہ چند دہے پیشتر وہاں کے سارے شعرا وہیں تک محدود تھے۔ اب جو نسل آئی ہے بہت باصلاحیت ہے پڑھی لکھی ہے باروزگار ہے اور سب سے زیادہ شعری خلاقیت سے واقف ہے۔ صائمہ آفتاب، توقیر احمد، قاسم حیات، عثمان سیدوی، امجد مرید حیدری،سجاد حیدر،شفیق انصاری، ارشد مخلص، نعیم رضا بھٹی، نوید غازی اور چند اور اہم ناموں نے اپنے علاقے کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ادبی مراکز میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ یہ سب اپنا کمایا کھا رہے ہیں کسی ایک شاعر سے نہیں پورے ادبی عہد کے رجحانات سے واقفیت رکھتے ہیں اور شعر کہتے ہیں۔زیب النسا واثق کی محفل میں محفل ِداد سخن بھی برپا ہوئی اور ان کے کلام اور خیالات سے آگاہی ہوئی۔توقیر احمد اور قاسم حیات دونوں بھائی ہیں اور خوب شعر کہتے ہیں۔ منڈی ضلع کے ارشد مخلص اور منظور واصب نے اردو کے ساتھ ماں بولی میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ارشد کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔منظور واصب کی شعری تخلیقات اس معیار کی ہیں کہ سرکاری ادبی اداروں کو ان کی معاونت کر کے ان کی کتب کا اشاعت کا انتظام کرنا چاہیے۔ مگر ایک بات پر مجھے حیرت ہے کہ یہ سارے شعرا صرف غزل گوئی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔آزاد نظم کا میدان بہت وسیع ہے ان تمام شعرا میں ایسے جوہر ہیں کہ وہ آزاد نظم کے میدان میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں اگر غزل ایک دریا ہے تو آزاد نظم ایک بحر ِبے کنار ہے۔غزل دو کناروں کے مابین رہنے اور بہنے کا نام ہے، نظم بے کنار ہونے کا نام ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ ان سب میں کوئی آزاد نظم کا والہ و شیدا ہے یا فی الواقع نظم نگار بھی ہے۔ویسے میرے خیال میں نظم نگار ہونا غزل گو ہونے پر سبقت رکھتا ہے۔ زیب النسا واثق شعر بھی کہتی ہیں اور ایک فرم میں کام بھی کرتی ہیں۔قدرت نے بلا کا ذوق عطا کیا ہے تھوڑی عمر میں اپنا آپ دریافت کرنے میں مگن ہیں۔ خدیجہ سلطان ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور ویڈیوگرافی اور باکسنگ کا شوق بھی پالا ہوا ہے۔ایک ہونہار اور ذہین نسل سے مکالمہ کرنا بذات خود ایک اہم تجربہ ہے۔ ان کی زندگی کے ہم سفر گلفام احمد کی موجودگی نے محفل کو دو بالا کر دیا۔اس محفل میں چند نمائندہ اشعار درج ہیں کہ ان کے مجموعی مزاج کی نشاندہی ہو سکے۔ اس سے پہلے کہ گاڑی چل جائے اس کو روکو کہو کہ کل جائے میں تو مجبور ہوں محبت میں، آپ چاہیں تو معذرت کر لیں زیب النساء واثق تجھ سے مرا وجود سنبھالا نہ جا سکا میں نے ترا غبار بھی رکھا سمیٹ کر نعیم رضا بھٹی یہ آب ِتند رو پر جھولتے پل کی مسافت کنارے پر کھڑے لوگوں کو اندازہ نہیں ہے صائمہ آفتاب قبرستان کے ایک مزار پہ جب سے دھاگہ باندھا ہے امیدوں کے بْور سے جھْورا اپنا پیڑ دعاؤں کا رات کے سنّاٹے میں قاسم کان لگے دروازے کو دور گلی میں آہستہ سے بڑھتا شور کھڑاؤں کا قاسم حیات یوں تو یہ محفل منڈی والوں اور منڈی والیوں کی ہے مگر اس دفعہ زیب نے عرفان صادق اور جواز جعفری کو بلوا کر اسے ملٹی کلر کر دیا ہم جانگلی لوگ لہندے کی بولی کو پنجابی معلٰے سمجھنے اور بنانے والے ایسے خوبصورت شاعروں کی شاعری سے لطف اندوز ہوئے زیب نے ان کو مدعو کر کے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند کا کام کر دیا۔اب آپ یہ قیافے لگانے نہ بیٹھ جائیں اصل مخمل منڈی والے تھے یا محفل کی زینت بننے والے دوسرے دو مہمان!!!۔