ما سوا، قسم ہے کفارے کی، کے بعد کٹی پوروں سے بہتی نظمیں ایک مسلسل کی رو ہے جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔ یہ رو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اس کا منہاج افقی نہیں عمودی ہے۔استعاراتی زبان اور استعارہ عمودی جہت کی نمائندہ ہے۔ یہ جامد نہیں ارتقائی تخلیقی عملی ہے۔ یہ جین کی منتقلی ہے عمودی منتقلی والدین کی طرف سے ڈی این اے کی وراثت ہے۔سلیم شہزاد نے یہ وراثت یا ڈی این اے اس معاشرے سے حاصل کی۔ یہ کسی از خود ہوئے تجربے کا ماحصل ہے کہ ایسی روایت یہاں اردو نظم میں اس طرح موجود نہیں۔کسی ایک نظم یا نثر کے ایک پیراگراف کی مثال استنثائی ہو سکتی ہے۔نظم کی ساخت اس کا بیرون ہے اس کا مدعا نہیں۔جو دوست احباب اس نظم کی ظاہری ساخت کی بات کرتے ہیں وہ ادھورے سچ کے مترادف ہے۔لباس معاشرے کے چند خصائص میں سے ایک ہے قطعی نہیں۔ سلیم شہزاد کی نظم پیچیدہ تحریر کی نمائندہ ہے۔اب ادب کے عموما دو قسم کے قاری ہیں، ایک کے حلق سے یہ نظم نیچے نہیں اترتی دوسرا اس پر فدا ہے۔ نیند کے پنگھوڑے میں/ آنکھ کی خدائی ہے/ دھات کے برادے میں/ بوند کی جدائی ہے بوند کے وظیفے پر/ ایک چھینٹ پانی سے/ کھوٹ سرد ساحل کا/ سمت کے تعفن پر/ بھیک مانگے پہلو کی یہ دو چار لائنیں شاعر کے منتخب کردہ اسلوب میں لکھنے سے قاصر ہوں کہ وہ لائنوں یا سطروں کی ہئیت معنیٰ کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیتا ہے۔ آپ اس سے وہ حظ ضرور حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کی دسترس میں ہے۔اس لیے کہ میرے اپنے خیال میں سلیم کی نظم کسی ہئیت کی محتاج نہیں۔ہمارا شاعر انیس ناگی کی محفل کا آدمی ہے۔ناگی کا کہنا ہے میں ان کتابوں کا ارادہ ہوں جسے تحریر کی خواہش کتابوں میں ہراساں ہے سلیم شہزاد کی نظم Untold کہانی ہے جو کبھی مکمل نہیں کہی جا سکتی اور مکمل نہیں کی جا سکتی۔یہ وہ آدھ کہی بات ہے جس کا آدھ شاعر میں ابھی پیوست ہے۔ یہ کسی مصور کی نظمیں جو الفاظ سے بے نیاز ہو کر بھی اپنی ترسیل پر قادر ہوتا ہے۔اس کی نظم اس کی اردو تخلیقات تک محدود نہیں محدود موضوعات پر قناعت کرنے والی ہماری جدید پنجابی شاعری میں بھی اس نے الگ راہ منتخب کی ہے: یار سجن/ تساں سپاں اگے/ منکے پڑھ پڑھ سْٹے یار سجن/ اساں سینے اتے/ سپ لڑا کے سْتے یہ نظم اور شاعری اپنی مثال آپ ہے۔ایسی شاعری اردو اور پنجابی کے نام پر بنے اداروں کو شائع کرنی چاہیے۔مگر ان کی تو دیہاڑی لگی ہوئی ہے وہ کیوں اس آگ کو گلزار کرنے کے جتن کریں گے۔ الحمرا مسلسل اپنی آب و تاب سے باقاعدگی سے منصہ شہود پر آتا چلا رہا ہے۔یہ اس کی اشاعت کا بایسواں سال ہے اور شمارہ نمبر نو ہے۔شاہد علی خان جس طرح الحمرا کیلئے خود کو وقف کر چکے ہیں یہ انہی کا حصہ ہے۔ یوں تو ماہنامہ الحمرا کے بانی مولانا حامد علی خان تھے مگر اس کی اشاعت میں تعطل کے بعد اب اس کا انتظام و انصرام کی ذمہ داری شاہد علی خان کی ہے۔ ان کا خاندان تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں کا خاندان ہے۔الحمرا کی سرورق خطاطی تاج زریں رقم کا عطیہ ہے۔ مصور اسلم کمال بھی کمال محبت سے اس پرچے کیلئے خطاطی کا تحفہ ارزاں کرتے ہیں۔ مدیر کو اردو ادب کے سینئر ادیبوں کا تعاون حاصل ہے۔ان سینئر ادبا میں ظفر اقبال آغا گل سلمی اعوان نذیر قیصر شبہ طراز اور کئی دوسرے معروف ادبا شامل ہیں۔ اس ستمبر 22 کے پرچے میں آغا گل کا افسانہ الحمرا کی زینت بنا ہے۔آغا گل کا افسانہ بلوچستان کی دھرتی سے پھوٹتا ہے۔اس دفعہ ان کا افسانہ تحفہ ہماری سیاست کی کئی تلخ حقیقتوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔اس ایک افسانے میں کتنے افسانے شامل ہیں۔اس افسانے میں بلوچستان، بلوچستان یونیورسٹی، اغوا، جبری گمشدگی، تعلیم، پولیس کا رویہ؟ ایران سے آئے ہوئے سمگل شدہ بسکٹ، ٹیوشن کی اکیڈیمیاں، پولیس آفیسروں کا قتل، ملاوٹ اور خالص دودھ دہی کی طرح خالص استاد کی عدم دستیابی، تھانوں میں چھتر کلچر، ضلعی افسروں کی زرخیز پوسٹنگز، افسروں کا کھابوں پر ہاتھ مارنا مگر معاشرے میں " الفقر فخری" کا ملمع چڑھانا، تعلیمی ڈگریوں کی قدروقیمت منسوخ شدہ نوٹوں کے برابر ہونا اور یہ سچ کہ "تھانے دار کی ماں فوت ہو تو سارا شہر امڈ آتا ہے اور تھانے دار ساری دنیا سے منجی بسترا لپیٹ کر چلتا بنے تو کوئی بھی نہیں آتا۔یہ دنیا گول ہے اندر سے پول ہے۔"اور واقعی پڑھانا ایک فن ہے یہی وجہ ہے کہ باپ پڑھا نہیں سکتا باپ اپنی وراثت سے اولاد کو جائیداد تو دے سکتا ہے علم نہیں۔یہ کہانی ایک ایسے جبر کو سمیٹے ہوئے ہے جس کا اظہار یہاں ناممکن ہے۔تاہم اس کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ مثلہ اسلام میں منع ہے۔ ہمارے بھائی کی لاش پر ظلم نہ کیا جائے اور میت ہمارے حوالے کی جائے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے تاریخ متعصب ہوتی ہے اور ادب غیر جانبدار۔یہ بلوچستان کا سماجی اور معاشرتی روزنامچہ ہے۔آغا گل کی جے ہو۔ منیر نیازی کا پنجابی مجموعہ کل کلام جس میں ان کی تینوں پنجابی کتابیں سفر دی رات چار چپ چیزاں اور رستہ دسن والے تارے شامل ہیں موصول ہوا۔اس میں ان کا تازہ اور غیر مطبوعہ کلام بھی شامل ہے۔ان کی کتاب سفر دی رات سے ایک خوبصورت نظم جسے منیر نیازی ہی لکھ سکتے ہیں۔ان کی اردو شاعری ہو یا پنجابی ایک سحر، ایک الگ ہوا اور الگ موضوعات سے بھری شاعری ہے: اینی اینی خبر اے مینوں اوس اخیری ویلے دی ساہواں اتے پہرہ دیندی انھی موت دے ریلے دی دور اسمان تے رب سی میرا چار چوفیرے لاشاں سن میں اوہ جہڑا آناں والے سورمیاں دا پوتا سی اپنے موئے ہوئے ساتھیاں دے وچ پتھر وانگ کھلوتا سی