بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے درمیان پھوٹ کی خبریں منظر ِ عام پر آرہی ہیں۔ بھارت میں کئی حلقوں میں یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تنازعات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی نے جس جماعت کی کھوکھ سے جنم لیا ہے وہ آر ایس ایس ہییہاں تک کہکچھ حلقوں نے آرایس ایس کو بی جے پی کا عسکری ونگ قرار دیا۔ جو بات اچنبھے کی ہے وہ بی بی سی اور نیویارک ٹائمز کے بعد اب خود شیو سینا کا وہ بیان ہے جس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم آرایس ایس کے سربراہ اور بال ٹھاکرے کی جماعت کے کرتا دھرتا اْدھو ٹھاکرے نے مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ اْدھو بال ٹھاکرے نے کہا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی نے گجرات فسادات کے دوران مودی کو راج دَھرم نبھانے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سابق بھارتی وزیراعظم اَٹل بہاری واجپائی نے نریندر مودی سے استعفیٰ طلب کیا تھا مگر بال ٹھاکرے نے واجپائی کومودی کے استعفیٰ کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا تھا۔ اگر بال ٹھاکرے مودی کی پشت پر نہ کھڑا ہوتا تو مودی آج وزیراعظم بھارت نہ ہوتا۔ اْدھو ٹھاکرے کے مطابق بی جے پی ہندوتوا کے نظریے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کے ناقابل ِ تردید ثبوت منظر ِ عام پر آچکے ہیں کیا بھارتی عوام ایسے شخص کو دوبارہ وزیراعظم منتخب کریں گے جو اس کے اپنوں اور عالمی میڈیا کے مطابق دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہو؟ کیا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والا مودی خطے اور عالمی دنیا کے لئے خطرہ ثابت نہیں ہوگا؟ کچھ عرصہ قبل اقوامِ متحدہ میں بھارتی سفیر نے بیان دیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے۔ اْن کے مطابق اْسامہ بن لادن پاکستان میں ملا تھا۔ جس پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے جوابی بیان میں موقف اختیار کیا تھا کہ اْسامہ بن لادن مرچکا ہے جبکہ گجرات کا قصائی ابھی زندہ ہے۔ بلاول نے کہا کہ اگر بھارتی عوام سے پوچھا جائے کہ بھارت میں دہشت گرد کون ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کہ اْن کا وزیراعظم(دہشت گرد ہے)۔ بلاول نے خود امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئیسوال کیا کہ کیا مسلم کش فسادات کی بنا پر نریندر مودی کا داخلہ امریکہ میں بند نہیںکردیا تھا۔ جب مودی بھارت کا وزیراعظم بنا تو امریکہ نے وہ پابندی اْٹھا لی۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے مزید کہا تھا کہ حیران کن طور پر جو افراد مسلم کش فسادات میں ملوث تھے اْنہیں بھارتی سپریم کورٹ نے ’باعزت بری‘ کردیا ہے۔ جب بلاول بھٹو نے یہ بیان دیا تو بھارتی میڈیا نے ایسا اْودھم مچایا جس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی میڈیا نے بلاول بھٹو کو بچہ قرار دیا، بلاول بھٹو پر ایسے ایسے الزامات لگائے گئے اور ان کی کردار کشی کی گئی۔ لیکن اب شیو سینا کے سربراہ کے انکشافات عالمی برادری کی توجہ کے طالب ہیں۔ عالمی برادری کو اِن انکشافات کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور بیان کی تمام تر جزیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نریندر مودی کی سیاسی زندگی، طرزِ سیاست اور حکومت میں آکر ہندوتوا کے پرچار اور مسلم کش فسادات جیسے انسانیت سوز مظالم پر ذمہ داری کا تعین کرناچاہئے ۔ بھارتی حکومت مسلمانوں کے درپے کیوں ہے؟ چند سال قبل حکومت ِ پاکستان نے بھارتی دہشت گرد اور حاضر سروس نیوی افسر کمانڈر کلبھوشن کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔ جس پر پہلے تو بھارتی میڈیا نے بڑا واویلا کیا کہ وہ بھارت کا شہری ہی نہیں ہے لیکن جب پاکستانی میڈیا نے ثبوتوں کے ساتھ کلبھوشن کے بیانات کو چلایا تو بھارتی حکومت کو ماننا پڑا کہ کلبھوشن نہ صرف بھارتی شہری ہے بلکہ وہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس ملازم ہے۔ جس کے بعد بھارت نے نہ صرف کلبھوشن تک سفارتی رسائی مانگی بلکہ اْس کے خاندان کے افراد کی ملاقات بھی کروائی ۔ اِس دوران پاکستانی سپریم کورٹ نے کلبھوشن کو دہشت گردی اور پاکستان میں امن ِ عامہ میں نقص پیدا کرنے پر سزائے موت دے دی اور عمل در آمد کا حکم دے دیا۔ جس پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حکم پر بھارتی حکومت نے فوراً عالمی عدالت برائے انصاف میں اپیل دائر کردی اور کلبھوشن کی سزا ختم کروانے پر زور دیا۔ اگرچہ عالمی عدالت برائے انصاف نے ایسا گول مول سا فیصلہ دیا کہ نہ تو پاکستان کو انصاف دیا اور نہ ہی سزائے موت روکنے کا حکم دیا۔ کیونکہ اگر عالمی عدالت برائے انصاف ایسا واضح حکم دیتی تو یقینا مغربی تہذیب کا دورْخہ پن سامنے آجاتا۔ اس لئے عالمی عدالت برائے انصاف نے پاکستان حکومت کو حکم دیا کہ وہ کلبھوشن کو اپیل کا حق فراہم کرے۔ یہی وجہ ہے تاحال کلبھوشن کی سزائے موت ملتوی ہے۔ اب اْدھو بال ٹھاکرے کے بیانات کو کلبھوشن کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ملاکر ایک تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی سرپرستی میں بھارتی سرکار دہشت گردانہ سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث ہے۔ مودی سرکار ہندتواکا صرف پرچار ہی نہیں کررہی بلکہ ایسے عملی اقدامات اْٹھا رہی ہے جن کی وجہ سے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ مودی کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے اْترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتیا ناتھ بھی مسلمانوں کے خلاف سخت گیر مہم چلا رہے ہیں۔ یوگی نے اْترپردیش میں اْن تمام شہروں کے نام ہندو یوگیوں اور ہندودھرم کے نامی گرامی کرداروں پر رکھنے شروع کردیئے ہیں ۔ کیا عالمی عدالت برائے انصاف اْدھو بال ٹھاکرے کے بیانات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کیا فوری نوٹس لے گی؟ کیا مودی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ کیا بھارت میں مسلمانو ں پر جاری مظالم کو روکا جائے گا؟ اْدھوبال ٹھاکرے نے جس یقین کے ساتھ مودی کے جرائم سے پردہ اْٹھایا ہے اس کے متعلق عالمی عدالت برائے انصاف کے ساتھ ساتھ خود عالمی برداری کو بھی نوٹس لینا چاہئے کہ بھار ت میں تاحال ایسا فرد سرکار چلا رہا ہے جس کی پوری سیاست دہشت گردی کے گرد گھومتی ہے۔ یہ عالمی برادری کا امتحان ہے۔