حضرت علی المرتضیؓ نے اس شخص کو مبارکباد دی ہے جس کا رزق اس کے گھر کے قریب ہے اس وقت اندازاً سعودی عرب میں 28 لاکھ یو اے ای میں 16 لاکھ کویت میں تین لاکھ قطر میں اڑھائی لاکھ بحرین میں ڈیڑھ لاکھ ملائشیا میں ایک لاکھ عمان میں تقریباً تین لاکھ برطانیہ میں تقریبا 25 لاکھ امریکہ میں 10 لاکھ سے اوپر کینیڈا میں چار لاکھ سے اوپر آسٹریلیا میں ایک لاکھ جرمنی میں 50 ہزار اٹلی میں ایک لاکھ سے اوپر سپین میں بھی تقریباً ایک لاکھ سے اوپر فرانس میں 50 ہزار سے اوپر ناروے میں بھی 50 ہزار سے زائدپاکستانی موجود ہیں۔ بر صغیر کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے کہ یہ ہجرت نہیں کرتے حملہ آور نہیں ہوتے سیاحت تجارت بھی کچھ خاص نہیں کرتے مگر بارڈرز کی تقسیم اور بعد ازاں اس علاقے کی پسماندگی نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اچھے مستقبل کے لیے ہجرت کریں۔ عرب میں روزگار کے لیے اور دیگر مغربی ممالک امریکہ برطانیہ کینیڈا وغیرہ میں بھی جاتے ہیں۔مگر پھر وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سب سے تلخ تجربہ عرب ممالک میں جانے والوں کو ہوتا ہے جو اپنی زندگی کا اہم حصہ وہاں گزار کر جب واپس اپنے وطن آتے ہیں تو یہاں وہ اجنبیوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ پیچھے سے بچے جوان ہو جاتے ہیں جو باپ کی شفقت اور تربیت سے محروم رہتے ہیں سب سے سنگین مسائل انہی کے ہیں۔ عرب میں مستقل سکونت ناممکن ہے اکثریت کے بچے یہاں آزادی ہونے کی وجہ سے خراب بھی ہو جاتے ہیں اور بھی بیشمار مسائل ہیں جن کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر سال ویزہ لگوانا اور ہر کوئیٹھیک ایک سال بعد تجدید کے مراحل سے بھی گزرتا ہے۔ فیملی کے ساتھ رہائش عام مزدور کے لیے ناممکن ہے جو تھوڑے بہت اچھا کما لیتے ہیں وہ تعلیم کی وجہ سے وہاں بچے نہیں رکھ سکتے دوسری طرف یورپ امریکہ کینیڈا وغیرہ میں ایسے مسائل نہیں وہاں بھی لوگ پہلے پہل یہی سوچ کر جاتے ہیں کہ کچھ عرصہ کام کریں گے پھر انہی پیسوں سے اپنے وطن میں واپس آ کر کوئی کاروبار کریں گے مگر وہاں شہریت دے دی جاتی ہے اور وہاں جانا ایک کشش اور کامیابی بھی بن چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ان ممالک میں جانے والے اور ان کی نسلیں اسی کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔ دوسری کھیپ جو 80 اور 2000 کی دہائی میں گئی ان کا ایک پاؤں پاکستان میں جبکہ دوسرا وہاں ہے وہ یہاں زندگی کا آخری حصہ بھی گزارنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی شادیاں بھی کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہاں والوں پر شادی ایک احسان کے طور پر کی جاتی ہے یعنی تہذیبوں کا تصادم شروع ہے۔ پاکستان میں جو بچا کھچا خاندانی نظام چل رہا ہے ایسا وہاں بھی چلانے کی کوشش کی جاتی ہے جو بری طرح ناکام ہوتی ہے۔ اب وہاں کی کمائی سے یہاں بھی بہت کچھ بنایا جاتا ہے نیت یہی ہوتی ہے کہ واپس جا کر سکون سے زندگی گزاریں گے مگر بدقسمتی سے بڑے شہروں میں تو ملازمین ہی رہتے ہیں اور چھوٹے شہروں میں رشتہ دار قابض ہوتے ہیں۔ ایک دو مہینے کے لیے جب وہ آتے ہیں تو پورا پروٹوکول ملتا ہے اور پھر واپسی کا تلخ تجربہ شروع ہوجاتا ہے۔ بس جانے کا جنونیت کی حد تک شوق ہوتا ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد ایسی تلخیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ بیچارے موبائلز فون پر بڑھاس نکال رہے ہوتے ہیں وہ اپنے دکھ اور بیگانگی بتانا چاہتے ہیں اور یہاں والوں کی اولین ترجیح کوشش اپنی ضروریات اور مجبوریوں کا بیان ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے دکھ بھول کر سیدھا پاکستان پیسے بھیجنے والی کمپنیوں کے پاس جاتے ہیں۔ رقم بھیجی اور اسکی کاپی واٹس ایپ کی اور پھر کچھ ہی دیر بعد جب اپنے دکھ اور شکریہ کے الفاظ سننے کے لیے کال کرتے ہیں تو آگے سے فون ہی بند جاتا ہے یا اٹھایا ہی نہیں جاتا۔ دوسری بڑی مصیبت بچوں کی شادیاں پاکستان میں ہی کرنے کی ضد اور یہاں موجود رشتہ داروں کا دباؤ جبکہ بچے وہاں کے ماحول کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی مرضی سے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے کیسے کیسے خواب لے کر وہاں جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے یہی دکھ برداشت کر کے وہ کسی بڑی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر ایک دن تابوت پاکستان واپس آتا ہے۔ اوورسیز پاکستانی ساری زندگی وہی رہتا ہے ماں باپ بیوی بچوں بہن بھائیوں یار دوستوں سے دوری کسی سزا سے کم نہیں۔ ہمارے ہاں اسے میٹھی جیل کہا جاتا ہے وہ بیچارے یہی سوچتے رہتے ہیں کاش ہمارا ملک ترقی کرے ہم واپس جائیں۔ دعوے سے کہا جا سکتا ہے اگر یہ ملک ترقی کرجائے تو یقین جانیے کوئی ایک بھی وہاں نہ رہے۔ دنیا کی بہترین سہولیات وہاں میسر ہیں ہر چیز چمک دمک رہی ہے مگر ان کے دل بجھے ہوئے ہیں اور وہ پوری تہذیب اور کلچر چھوڑ کر جاتے ہیں جو وہاں ممکن ہی نہیں کتنے پیسے بھیجتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں بڑا حصہ ہے ان کا۔ وہاں محنت کر کے بھی اس ملک کے لیے وہ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ویسے تو سارا پاکستان ہی مظلوم ہے مگر سب سے تلخ زندگی وہی گزار رہے ہیں اور پھر ان کے بچے جب سرکش ہوجاتے ہیں تو وہ ان کا کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ آج بھی آدھے پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ یہاں سے ہجرت کرجائیں ہمارے پاس پاسپورٹ کا پیپر کم پڑ چکا ہے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بنا رہے ہیں جبکہ جو جا چکے ہیں انکا دکھ کرب کوئی سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ سمجھنا تو بہت دور کی صورتحال ہے یااللہ ہم پر رحم فرما ۔