پارلیمان کی مدت تمام ہوئی ۔ سوال یہ ہے کہ اس کی کارکردگی کیا ہے؟ اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں ہے یا بائیں ہاتھ میں؟ یہ اپنی ذمہ داریوں کے باب میں سرخرو ہوئی یا اپنے ورثے میں ندامت چھوڑ کر جا رہی ہے؟پارلیمان کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ اوسطا ایک سال میں یہ صرف 90 دن اجلاس منعقد کر سکی۔ یعنی مجموعی طور پر یہ معززین کرام بارہ مہینوں میں سے صرف تین مہینے اپنے کام پر پائے گئے۔ تنخواہیں اور مراعات البتہ انہوں نے بارہ مہینوں کے حساب سے لیں۔ ایسے مزے پاکستان میں شاید ہی کسی اور ادارے کے ہوں جیسے مزے معزز پارلیمان کے رہے۔ اس سے آپ ایسی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ ان نوے دنوں میں پارلیمان ( خورشید شاہ صاحب کی پارلیامان) نے بہت دلجمعی سے کام کیا ۔ پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق پورے پانچ سالوں میں پارلیمان کے کام کا دورانیہ صرف 1245 گھنٹے رہا۔ یعنی ہر سال صرف 249 گھنٹے۔ یعنی ہر مہینے صرف 20 گھنٹے۔ یعنی ہر روز کے صرف 40 منٹ۔اس ملک میں ہر سرکاری ملازم کے لیے کام کا دورانیہ آٹھ گھنٹے روزانہ ہے لیکن ہمارے معزز اراکین پارلیمان نے ان پانچ سالوں میں 40 منٹ روزانہ کے حساب سے شاندار کارکردگی دکھائی۔ اس میں بھی اگر لایعنی تقار یر اور ایک دوسرے کے خلاف شعلہ بیانی کا دورانیہ نکال دیں اور قانون سازی پر سنجیدہ مباحث کا وقت نکالیں تو شاید پانچ دس سیکنڈ روزانہ بھی نہ ہو۔اس پارلیمان کی مدت میں ہم نے دو حکومتیں دیکھیں ۔ پہلے تحریک انصاف کی اور اس کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی۔ سچ یہ ہے کہ ان دونوں حکومتوں کا طرز عمل پریشان کن رہا۔ تحریک انصاف کی قانون سازی کے عمل میں سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے پارلیمان کے ہوتے ہوئے ایک یا دو نہیں ، پورے 72 صدارتی آرڈی ننس جاری کیے ۔ اس کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی حکومت کا طرز عمل یہ رہا کہ اس نے اپنے آ خری تین ہفتوں میں 73 بل پاس کیے۔ جس عجلت میں پی ڈی ایم نے قانون سازی کی ، یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔کئی بل ایسے تھے کہ ضابطوں کو پامال کر کے پیش کیے گئے اور انہیں کسی قائمہ کمیٹی کو بھی نہ بھیجا گیا۔ پلڈاٹ کے مطابق اس قومی اسمبلی کے کام کے دورانیے کا ایک گھنٹہ اس قوم کو 24 ملین میں پڑا۔ یاد رہے کہ ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا ایک گھنٹہ اس قوم کو 240 لاکھ میں پڑا۔ کیا وطن عزیز میں کوئی دیوار گریہ ہے جہاں غربت اور مہنگائی کی ماری یہ قوم سر رکھ کر ایک 240 لاکھ روپے فی گھنٹہ کی بربادی پر آہ و بکا کر سکے؟ الیکشن جیت کر اسمبلی میں تشریف لانے کے لیے اہل سیاست نے اس معاشرے کی سماجی قدروں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ معاشرہ عملی طور پر ایک آتش فشاں بن چکا ہے ۔لیکن الیکشن جیت جانے کے بعد ان کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وزرائے اعظم ایوان میں آنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ وزیر اعظم عمران خان کی اسمبلی میں حاضری کی اوسط صرف 11 فی صد تھی ا ور وزیر اعظم شہباز شریف کی حاضری 17 فی صد تھی۔ جس اسمبلی نے عمران کو وزیر اعظم بنایا، اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔جب وزرائے اعظم کو اسمبلی میں تشریف لانا گوارا نہیں تو یہ الیکشن میں حصہ کس لیے لیتے ہیں ۔ اور پارلیمان کی پھر ضرورت کیا ہے کہ اس کے ایک گھنٹے پر مہنگائی کی ماری قوم 240 لاکھ روپے خرچ کرے؟ قانون سازوں نے اپنے لیے بڑی آسانی پیدا کر رکھی ہے۔ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصورکیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گذشتہ سے پیوستہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے، مسلسل چالیس اجلاسوں کی بات کی گئی ہے۔ ان کے اخراجات دیکھیے جو غریب قوم برداشت کر رہی ہے۔ مراعات کا ساون برس رہا ہے۔ بنیادی تنخواہ کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس ، ٹیلی فون الاؤنس ، ایڈ ہاک ریلیف، سفری واؤچرز ، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس ، ڈیلی الاؤنس ۔لنگر ہی تو کھلا ہے۔ یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔اس سب کے باوجود یہ اپنے پانچ سالوں میں اوسطا چالیس منٹ روزانہ اسمبلی میں کام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ پارلیمان کی مدت کے اختتام پر خود احتسابی کی کوئی مشق ہو اور پارلیمان خود کوئی دستاویز جاری کر کے بتائے کہ ان پانچ سالوں میں ہماری کارکردگی یہ رہی اور پھر اس رپورٹ پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر کوئی بامقصد بحث جنم لے سکے۔یہ سچے ، امانت دار ، نیک ، باکردار ، نہ بکنے والے ، نہ جھکنے والے ، آپ کے ووٹ کے جائز حقدار ، کردار کے غازی ، بے داغ ماضی جس بے نیازی سے اسمبلی میں تشریف لاتے ہیں اسی بے نیازی سے مدت مکمل ہونے پر واپس چلے جاتے ہیں۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کہیں کوئی خود احتسابی کا کوئی بندوبست ہے۔ نیم خواندہ معاشرے کو یہ عصبیت اور نفرت کی جس لاٹھی سے ہانکتے ہیں انہیں یقین کامل ہے کہ یہ کچھ کریں یا نہ کریں ان کے حصے کے بے وقوف ہر حال میں ان سے مطمئن ہیں۔رعایا یہاں سوال اٹھاتی ہی نہیں ہے۔اس سے یہ صلاحیت ہی سلب کر لی گئی ہے۔یہاں دربار ہے اور اہل دربار یہاں ملک الشعراء اپنے اپنے ممدوح کے لیے غزل قصیدہ کرتے ہیں۔ ایک سینیٹر مشتاق ہے جو ہماری اجتماعی جہالت کا کفارہ ادا کر رہا ہے۔