علم ایک ایسی دولت ہے جو نہ تو کبھی کم ہوتی ہے اور نہ ہی چوری ہو سکتی ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ علم کا دروازہ تھے اور حضور اقدس ؐ علم کے شہر تھے۔ علم کے بارے میں اِس سے بڑی فضلیت کوئی اور ہو نہیں سکتی اور پھر اگر علم کے ساتھ عمل ہو تو وہ سونے پر سہاگہ کی مانند ہو جاتا ہے، علم بغیر عمل کے کچھ بھی نہیں بلکہ ایسا پانی ہے کہ جس سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں جو قومیں علم حاصل کر کے اُس پرعمل پیرا ہوتی ہیں اور اپنے علم کے ذریعے مزید جستجو اور تحقیق کا دائرہ وسیع کرتی ہیں تو وہی قومیں ہی دراصل عمل کے ذریعے دنیا میں نامور ہوتی ہیں افسوس کہ ہمارے ملک کی اب کوئی سمت ہی سیدھی نہیں رہی قدرت نے ہمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں رکھی صرف ہماری اپنی کوتاہیاں غفلت اور بے عمل ہونے کی وجہ سے یہ ملک جو کبھی گل گلزار ہوا کرتا ہے اور اب یہ چمن ویران ہوتا جا رہا ہے۔ تحقیق اور جستجو جس کا نام تھا وہ اب ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں یعنی یونیورسٹیوں سے کب سے رخصت ہو چکی ہے، اب ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے سیاست ، لسانیت اور اقربا پروری کی وجہ سے تباہی کی جانب بڑی تیزی سے گامزن ہیں، جس کی مثال ہمارے اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان میں 2014ئ؁ کے دوران معرض وجود میں آنے والی غازی یونیورسٹی ہے کہ جو بڑے صبر آزما مراحل کے بعد ہمیں نصیب ہو ئی اور وہ بھی ایک عظیم الشان درس گاہ گورنمنٹ ڈگری کالج کو ختم کر کے اُس کی عمارت میں غازی یونیورسٹی بنائی گئی، یہ بھی ایک الگ المیہ ہے کہ ہم یونیورسٹیاں بنانے کے چکر میں کالجز کو ختم کر دیتے ہیں، جیسے عثمان بزدار کے دور میں گورنمنٹ ٹیکنیکل انسی ٹیوٹ کو ختم کر کے میر چاکر یونیورسٹی بنا دی گئی، اس اہم مسئلے پر پھر کبھی سہی غازی یونیورسٹی کو ابھی تک ایسا وائس چانسلر نہیں ملا جو لسانیت اور اقربا پروری سے ہٹ کر ہو ایک مستقل وائس چانسلر تین سال کے لیے ملا جس نے رخصت ہوتے ہوئے بھی اپنے مقاصد حاصل کیے پھر اُنہوں نے سابق گورنر چوہدری سرور کے ذریعے اپنی مدت ملازمت بڑھوانے کے لیے بڑا زور لگایا لیکن قدرت کو ایسا منظور نہ تھا اور یوں اُن کو اپنے خواب کو تعبیرنہ مل سکی پھر اُن کے بعد اور ایک صاحب نگران وائس چانسلر بنائے گئے اور اُنہی کے دور میں غازی یونیورسٹی میں آئے روز لسانی جھگڑے اور اساتذہ کی سیاست شروع ہو گئی اُس دوران ایک پروفیسر نے اپنی ہی طلبہ کو حراساں کیا جن کو پروفیسر اور استاد لکھتے ہوئے میرا قلم کانپ اُٹھتا ہے جن پر لڑکی کے بیان پر مقدمہ درج ہوا اور وہ گرفتار ہو کر جیل میں بند رہے لیکن نظام عدل کمزور ہونے کی وجہ سے دوبارہ پڑھارہے ہیں۔ سابق وائس چانسلر نے اِس واقعہ کے بارے میں انکوائری کمیٹی بنائی جس کا سربراہ پروفیسر سعد اللہ لغاری کو بنایا تو وہی سعدا للہ اور ہیڈ آف اسلامیات پروفیسر ڈاکٹر ارشد خان لغاری معطل ہو گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خان لغاری اور پروفیسر ڈاکٹر سعد اللہ علیانی کا یہی قصور ہے کہ وہ مقامی ہیں بعد میں سابق وائس چانسلر کا یہاں سے تبادلہ کر کے ڈپوٹیشن پر بھیج دیا ۔ اور اِن دو حق لکھنے والوں کے گلے میں معطلی کا طوق ڈال دیا گیا بعد میں ایڈیشنل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کی سر براہی میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ جس میں سابق وائس چانسلر پر جو الزامات عائد کیے گئے وہ صحیح ثابت ہوئے اور کمیٹی نے گورنر پنجاب اور سنڈیکیٹ کو سفارش کی تھی کہ اِن کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے جو اب بھی گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس پڑی ہوئی منتظر انصاف ہے۔ قومیں اور ملک ایسے تباہ نہیں ہوتے جہاں پر عدل ،انصاف ،لسانیت اور رشوت اور علاقائی ازم کا شکار ہو جائے تو پھر وہ قومیں معاشرے مٹ جایا کرتے ہیں گورنر بلیغ الرحمن صاحب اب آپ بہت جلد گورنر ہاؤس سے رخصت ہونے والے ہیں، آپ غازی یونیورسٹی کے اِن دو پروفیسر ڈاکٹر ارشد خان لغاری اور ڈاکٹر سعد اللہ خان علیانی کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اِن کو باعزت طریقے سے بحال کریں ہاں اگر یہ دونوں حضرات قصور وار ہیں اور میرٹ کے مطابق یہ پورے نہیں اُتراتے تو پھر انصاف کے اصول اِن پر بھی لگنے چاہیے لیکن اب چونکہ اِن کے خلاف یکطرفہ کارروائی ہوئی ہے، پروفیسر ارشد لغاری کا قصور صرف یہی ہے کہ اُس نے اُس بچی کے حق میں آواز اُٹھائی تھی اور سعد اللہ خان لغاری تحقیقی کمیٹی کے سربراہ تھے، جنہوں نے متاثرہ بچی کے حق میں صرف ا س لیے رپورٹ لکھی کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور اب اِن کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے اور سابق وائس چانسلر کو رخصت کر کے اُن پر لگائے گئے الزامات جو کمیٹی کے سامنے ثابت بھی ہو چکے ہیں۔ اُن پر عمل کیا جائے یہ تمام تر ذمہ داری آپ کی ہے کہ آپ دونوں فریقین کو اپنے پاس طلب کر کے انصاف کے تقاضوں کومد نظر رکھتے ہوئے اِن کو سماعت کریں اِن دونوں میں جو بھی فریق سابقہ رپوٹوں اور انکوائری کے بعد جو سچا ثابت ہو اُس کو بحال کریں اور جو قصور وار ٹھہرے اُن کے خلاف تمام تر لسانیت اور اقربا پروری سے ہٹ کر کاروائی کرئے۔ غازی یونیورسٹی اور دیگر تمام یونیورسٹی کو لسانیت اور اقربا پروری سے پاک کر دیں تا کہ ہمارے تعلیمی ادارے تو اِس لعنت سے بچ سکے۔