وہی اللہ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔ ویسے تو اس سیارے پر اقتدار اور شناخت ہی اہم رہے ہیں۔ کشت و خون بھی اسی وجہ سے بہایا گیا مگر ہمارے خطے میں زر زن زمین کا تصور بڑا قدیم ہے۔ برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے زمین کی تقسیم میں خوفناک غلطیاںکیں۔ پہلے تو اس کی غیرمساوی تقسیم کی گئی۔ دوسری زمین کے حساب سے اقتداربھی دیا گیا۔ملکیت کے تصور نے وراثتی شکل اختیار کر لی۔ اب جن لوگوں کو تاج برطانیہ کاساتھ دینے پر ہزاروں ایکڑ زمین دی گئی تھی وہ اسی طرح سے ان کی نسلوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جن کو ہزار ایکڑ دی گئی وہ کم ہو کر پانچ سو ایکڑ کے قریب رہ گئی ہے۔ مگر انکا کمال دیکھیں زمین کا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے دوسرے شعبوں میں بھی مفادات  پیدا کر لیے ۔ سب سے بڑا فائدہ اقتدار میں آنا تھا۔ بعد ازاں اس کو تقویت اور اقتدار کو دوام بخشا اور اقتدارکابھی وراثتی انتقال متعارف کروا دیا۔ باقی عوام کے پاس تھوڑی سی زمین بچی وہ ایک یا دو نسلوں تک آتی آتی ختم ہو گئی۔ جن کے پاس پانچ مرلے کا مکان تھا آج ان کی نسلیں کرائے کے مکانوں میں ذلیل ہو رہی ہیں۔ دنیا نے ملکیت کا تصور ختم کیا ۔پہلے لیز متعارف کروائی یعنی آج بھی تاج برطانیہ جو ہمیں اس خوفناک الجھن میں ڈال کر گیا ہے اگر آپ برطانیہ میں جگہ لیتے ہیں توکاغذات میں جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ آپکی ملکیت عمارت ہوگی زمین ریاست کی ملکیت ہے۔ یہی دوسرے ممالک میں ہوا جس سے تقسیم در تقسیم کے جھگڑے ختم ہوگئے ۔ملکیت رشتوں کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ بہن بھائی ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کا خوفناک چہرہ خونی دشمنی کی صورت میں نکلتا ہے۔ دشمنی میں پورے خاندان ختم ہو جاتے ہیں اور زمین وہیں رہتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ جائیداد عیاشی اور کاہلی کا سبب بنتی ہے ۔کامیابی کا پیمانہ ہمارے ہاں زمین جائیداد کے حصول سے منسوب ہے۔ ایک شناختی کارڈ پر سینکڑوں ایکڑ اراضی الاٹ ہوتی ہے۔اوپر سے ہم نے اسے مقدر اور نصیب سے جوڑ رکھا ہے ۔سب سے برا اور بدترین رہائشی نظام ہمارا ہے۔ ایک گلی میں مختلف طرز کی تعمیرات والے مکانات ایک ہی مارکیٹ میں اونچی نیچی دکانیں۔ ہمارے ہاں یہ بات راسخ کر چکی ہے کہ گھر اونچا بنانا ہے چونکہ ہمارے ہاں گلیاں اونچی ہوتی رہتی ہیں۔ جو مکان دس سال پہلے گلی سے کافی اونچا ہوتا ہے وہی مکان گلی کی سطح پر آ چکا ہوتا ہے۔ گھر کے باہر سپیڈ بریکر اس لیے بنایا ہوتا ہے کہ ہر کوئی رکے اور مکان یا کوٹھی دیکھ لے۔ پوری دنیا نے اس کابہترین حل نکالا کہ وہاںکے اکثریتی عوام کے ذہنوں سے گھر، کاروبار کی وراثت کے ذریعے  منتقلی کو فساد کی جڑ قرار دے دیا اورلوگ بھی اس برے فعل سے باز آگئے مگر ہمارے ہاں سب سے زیادہ فکر ماں باپ کو یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے کاروبار اور آسائشیں چھوڑ کر جائیں۔ اسی لیے اولاد بھی بے فکر اور کاہل ہو جاتی ہے کہ والدین بہت کچھ چھوڑ جائیں گے۔ مثلا وہاںکیا سہولیات ہیں تعلیم صحت حتی کہ رہائش تک ریاست فراہم کرتی ہے۔ ظاہر ہے  ہمارے ہاں یہ ذمہ داری ماں باپ کے ذمے چلی آرہی ہے۔ وہاں نہ ماں باپ اولاد پر بوجھ ہوتے ہیں نہ اولاد ماں باپ پر۔ ایک دوست امریکہ سے بتا رہا تھا کہ ایک سٹور پر شام کے وقت میاں بیوی بیٹی بیٹا آجاتے ہیں جو سیاہ فام ہیں ۔اس کے اسٹور کے سامنے باربی کیو لگاتے ہیں صبح تک کام کرتے ہیں ۔صبح سامان سمیٹتے ہیں تو بچوںکا باپ پیسوں کو گنتا ہے اور اس میں سے بیوی کو بیٹے کو بیٹی کو اور خود برابر تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک اور دوست نے فلیٹ لیا ۔مزے کی بات ہے نام اسی کے ہے مگر قیامت تک رجسٹری نہیں یعنی کوئی بھی چیز اس وقت تک اہم ہے جب تک آپ زندہ ہیں پھر وہ دوسرے زندہ کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں رہائش کا تصور ہی الٹ ہے کہ یہ مکان جائداد میں نے اس لیے لی کہ میری آنے والی نسلیں اسے استعمال کریں گی، ذلیل نہیں ہونگی ،کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گی ۔پھر یہی جائیداد اسکے بچے آگے انکے بچے آخر یہ صورتحال فروخت پر ختم ہوتی ہے۔ چونکہ اسکی نسل ہی اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ اسکا استعمال ممکن ہی نہیں رہتا۔ بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دیتے کہ پیچھے سے میرا کاروبار کون سنبھالے گا۔ بھوکے مر جاتے ہیں۔ سسک سسک کر زندگی گزار لیتے ہیں مگر جائیداد بیچ کرکاروبار نہیں کریں گے کہ پھر یہ دوبارہ نہیں بنے گی۔ بظاہر  ہم مسلمان ہیں مگر کتنے فیصد لوگ اپنی بیٹیوں کو حصہ دیتے ہیں۔ پال پوس دیا۔ شادی کردی۔ اب اورکیا کریں، یہ تصور عام ہے ۔جب اس ملک کی آبادی پچاس کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی تو اندازہ لگائیں ہمارا کیا بنے گا۔ ریاست کو چاہیے کہ صورتحال کا تدارک کرے۔ کم ازکم ریاست خود ایک ماڈل شہر بنائے جہاں کئی منزلوں پر مشتمل عمارتیں ہوں جیسے دبئی میں ہے ۔ ایک عمارت میں پوری بستی آباد ہوتی ہے۔ بہترین سیوریج سسٹم ہو ساتھ زیر زمین بجلی کانظام خود بخودملکیت کا تصور بھی ختم ہوجائے گا اور آسمان کو چھوتی ہوئی خالی پلاٹوںکی قیمتیں بھی۔ ہر شہر میں کئی کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور باقاعدہ ایک مافیا لوٹ رہا ہے۔ ایک ہی شہر میں لاتعداد ہاوسنگ سوسائٹیاں اور مخصوص لوگوں کا راتوں رات امیر ہوجانا ریاست کے لیے لمحہ فکریہ کیوں نہیں ہے۔ بدقسمتی کی انتہا کہ زرعی زمین بھی یہ مافیا پلاٹ بنا کربیچ رہا ہے اور راتوں رات چند لوگ کروڑوں پتی بن رہے ہیں بعد میں وہی ٹاون یتیمی کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭