سید تابش الوری کا شمار پاکستان کے اْن نامور سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے خدمت ِ خلق کو عملی شکل دیتے ہوئے کچھ کر دکھایا۔ چیئرمین میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر محمد شہزاد ابھی بھرپور نظامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مسعود صابر نے جس انداز میں سید تابش الوری کی خدمات کو سراہنے کی تقریب منعقد کی ہے اْس پر جس طرح سامعین پوری خاموشی کے ساتھ محفل سے لطف اندوز ہورہے تھے وہ بھی قابل ِ تعریف تھا۔ سید تابش الوری کا نام سترکی دہائی میں جنوبی پنجاب خصوصاًَ بہاولپور میں پوری شان و شوکت کے ساتھ اْس وقت گونجنے لگا جب پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مقبولیت کے سبھی ریکارڈ توڑ دیئے تھے مگر تابش الوری متحدہ اتحاد کے وہ واحد اْمیدوار تھے جنہوں نے اپنی سیٹ جیت لی اور پوری پاکستان پیپلز پارٹی کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ نام جنوبی پنجاب میں اِس لئے کئی حوالوں سے معتبر مانا جاتا ہے کیونکہ سید تابش ہی وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایکٹ کی منظوری دلوائی۔ وہ جھانگی والا روٹ، ٹیکنالوجی کالج، سوئی گیس کا اجرائ، بہاولپور سے سمہ سٹہ تک پکی سڑک بنوانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد کی ملازمتوں کا وسیلہ بنے۔ وہ بہ یک وقت شاعر، صحافی، پارلیمینٹرین، صاحب طرز ادیب، مصنف اور خدمت ِ خلق میں معتبر حوالہ ہیں۔ ڈین سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے چند ہفتے قبل اِسی وسیب ہال میں مختلف اداروں کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کئے تاکہ جنوبی پنجاب میں خواتین خصوصاََ جامعات میں پڑھنے والی طالبات کی ذہنی و جسمانی صحت پر زور دیا جاسکے۔ وہ کئی سال سے خواتین کو معاشی و معاشرتی طور پر بااختیار بنانے جیسے کئی منصوبہ جات پر کام کررہی ہیں۔ ڈاکٹر ثمر فہد، ڈاکٹر بشریٰ صدیق، ڈاکٹر فاطمہ، ڈاکٹر سنگم خلیل، ڈاکٹر مریم، ڈاکٹر عابدہ فردوس، علینہ طارق چوہان، ڈاکٹر عنبرین مقصود، ڈاکٹر مدیحہ ریاض، ربعیہ الطاف، ڈاکٹر مہناز سمیت کئی اور کئی محنتی اور پْرلگن خواتین پر مشتمل ٹیم پروفیسر روبینہ کی سربراہی میں خواتین کو باصلاحیت اور بااختیار بنانے میں کوشاں ہے۔ سید تابش الوری کی خدمات کے اعتراف کی تقریب جاری تھی کہ وہ کہنے لگیں کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں بہت کم ایسے لیڈر ز ہیں جو انتھک محنت پہ یقین رکھتے ہیں۔ پروفیسر اطہر محبوب چونکہ ایک ایسے تعلیمی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کا ایک ایسا ماڈل متعارف کرایا ہے جسے پاکستان کی دوسری جامعات اپنانے پر مجبور ہیں۔ اِس ماڈل کو اپنا کر سرکاری جامعات جہاں خود کو معاشی طور پر خودکفیل ہوسکتی ہیں وہیں اپنی خودمختاری کو بھی قائم رکھ سکتی ہیں۔ گفت گو ابھی جاری تھی کہ ڈائس پر اْنہیں مدعو ع کیا گیا۔ دورانِ تقریر انہوں نے سید تابش الوری کی صحافتی، ثقافتی، سیاستی اور ادبی خدمات کوجس انداز میں سراہا کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اْٹھا۔ یہ بات درست ہے کہ تابش الوری ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں جنہوں نے پوری زندگی بہاولپور کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی۔ آہنی عزم کا یہ انسان آ ج بھی سینے میں بہاولپور صوبہ کی اْمنگ جگائے زندگی کا ہر دن بھرپور انداز میں جی رہا ہے۔انہوں نے درست کہا کہ ریاستِ پاکستان نے اپنے وعدے کے مطابق 1951ء میں بہاولپور ریاست کو الگ صوبائی حیثیت دی اور بانی ِ پاکستان جنابِ قائد اعظم محمد علی جناح سے کیا گیا وعدہ پورا کیا مگر ستر کی دہائی میں ایک طالع آزما ریٹائرڈ جرنیل نے بطور صدر اِس ریاست کو ریاستِ پاکستا ن میں ضم کردیا حالانکہ اس عمل کے لئے کسی بھی معاشرتی کونے سے کوئی ایسی آواز نہیں آئی تھی مگر ایک طالع آزما کے سامنے بھلا کون آوا ز اْٹھائے؟ یہی وجہ ہے کہ سید تابش الوری آج بھی کامل یقین رکھتے ہیں کہ بہاولپور کی ننانوے فیصد عوام بہاولپور ریاست کو صوبائی حیثیت میں بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اْن کے نزدیک بہاولپور عوام کے سیاسی، سماجی و معاشی مسائل کا واحد حل الگ صوبہ میں پنہاں ہے۔ جب تک حاکمین ِ وقت خصوصاََ اسٹیبلشمنٹ ہوش کے ناخن نہیں لیتی جنوبی پنجاب خصوصاًَ بہاولپور کے عوام کے درمیان دوریاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ یہ دوریاں کم ہوسکتی ہیں۔ سینوں میں پنپتی نفرتوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔ پیار، محبت، امن و آشتی، خیر و خوشحالی کے دیپ جلائے جاسکتے ہیں اگر ریاست اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور بہاولپور کے عوام کا جائز مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے فوراًَ بہاولپور ریاست کو صوبائی حیثیت میں بحال کرنے کا عزم کرے۔ دورانِ گفت گو پروفیسر روبینہ بھٹی نے تابش الوری کی ادبی و ثقافتی خدمات کے اعتراف میں ایک تجویز پیش کی کہ جیسے لاہور میں ’پاک ٹی ہاؤس‘ موجود ہے اور جس کے وجود سے درجنوں نامور ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے جنم لیا۔ بالکل اْسی طرز پر بہاولپور میں ’چولستان ٹی ہاؤس‘ قائم کیا جاسکتا ہے جو بہاولپور کے ادبی حلقوں میں وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل کرے گا اور مستقبل میں ’چولستان ٹی ہاؤس‘ کے صحن میں کئی ایسے قد آور درخت اْگیں گے جو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ادب و ثقافت کی آبیاری کریں گے۔ اگرچہ ہال میں کئی قد آور شخصیات موجود تھیں مگر راقم الحروف کو پروفیسر روبینہ کی تجویز پر عملدر آمد کے لئے موزوں ترین شخصیت ادب دوست کمشنر بہاولپورڈویثرن ڈاکٹر احتشام انور محسوس ہوئے۔ حال ہی میں تعینات ہونے والے کمشنر بہاولپور جہاں ’بہاولپور ادبی و ثقافتی فیسٹول‘ منعقد کرانے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں وہیں اْن سے ’چولستان ٹی ہاؤس‘ کے قیام کی اْمید بھی باندھی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر احتشام انور کے اندر کے جذبے کو بے چین روح سے اس لئے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے کیونکہ جس چیز کا وہ ارادہ کرلیتے ہیں وہ کرکے دم لیتے ہیں۔ جب وہ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ تعینات تھے تو انہوں نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے وہاں سی ایس ایس اکیڈمی کی داغ بیل ڈالی اور اْسے کامیاب کرکے دکھایا۔ یہی معاملہ اب بہاولپور میں ہے۔ یہاں بھی انہوں نے ایک سنٹر قائم کروایا ہے۔ یہ درست ہے کہ بہاولپور کے لوگ بلاشبہ مہمان نوازی، پیار، محبت او ر حسن ِ سلوک جیسی لازوال خوبیوں کے مالک ہیں۔مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ پروفیسر روبینہ بھٹی کی تجویز کے مطابق اْ ن کے مقدر میں ’چولستان ٹی ہاؤس‘ لکھا ہے یا نہیں۔ اِس کافیصلہ اب وقت کرے گا۔