محفل عدالتی فیصلوں کے جواز اور عدم جواز سے چلی اور حافظ عزیر کے فیصلے پر برخاست ہوئی۔وہی رام پور والے حافظ عزیر۔جب شعر کا تقاضا ہوا تو انجم خیالی کا شعر یاد کروا کے محفل لوٹ بھی لی۔ جب بھی اس کے پہلو میں آ بیٹھتا ہوں گھنٹوں مجھ سے دریا باتیں کرتا ہے اشعار کی قرات کے دوران اس ڈی کیفے کراؤن کا ذکر بھی ہوا اور گڑھی شاہو میں حافظ جوس کارنر کا بھی۔ یہ محفل عطاالحق قاسمی کے بارے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ایک فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی خوشی میں منعقد ہوئی تھی۔سابق چیف جسٹس کے فیصلے کے مطابق عطاالحق قاسمی، پرویز رشید، فواد حسن فواد اور اسحاق ڈار پر قومی خزانے کو انیس کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ثاقب نثار کا فیصلہ دو رکنی بنچ کا تھا لہذا چیف جسٹس فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔عدالتی فیصلے کے مطابق نہ تو اقربا پروری اور نہ ہی کرپشن کا کوئی ثبوت ملا۔عطاالحق قاسمی کے ساتھ باقی "شریک ملزموں" کی بریت کی نوید سنائی گئی تھی۔یہ ایک طویل اور صبر آزما کیس پانچ سال تک سپریم کورٹ اور منصفوں کی نظر ِالتفات کا منتظر تھا۔عدالت عالیہ کے اختیارات کو کون چیلنج کرنے والا ہے کہ اس کی حدود و قیود کا تعین بھی عدالت خود ہی کرتی ہے اور جس کو چاہے سزا کا مستوجب قرار دے سکتی ہے۔یہی کچھ اس کیس میں آرٹیکل۔3 184 کی رو سے کیا گیا۔سپریم کورٹ کی واحد اوریجنل جیورسڈکشن سوموٹو ہے باقی تمام جیورسڈکشن اپیلٹ، ریویو یا ایڈوائزری نوعیت کا ہے۔یہ وہی اختیار ہے جو ساس بہو کے خلاف استعمال کر سکتی ہے یا سابق صدور پاکستان اپنی بہو یعنی قومی اسمبلی کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔وہ سابق صدور جب چاہتے قومی اسمبلی کی دلہن کو نالائقی کا طعنہ دے دے کر گھر نکالا دیا کرتے تھے۔یہی کچھ اس عدالتی اختیار کے ذریعہ کیا گیا۔اس اختیار کو از خود نوٹس کے نام سے بچوں کو ڈرایا جاتا ہے کبھی مائیں ڈاکو محمد خان ڈھرنال کے نام سے ڈراتی تھیں گویا محمد خان ڈھرنال، دفعہ اٹھاون بی اور آرٹیکل 184.3 کا آپس میں خون کا رشتہ ہے۔ثاقب نثار بھی بادشاہ طبیعت کے مالک تھے جی چاہا تو ایک لوئر کورٹ میں کالے شیشوں والی عینک لگا کر پہنچ جاتے اور نوجوان ججوں کی توہین کرتے۔ یہی کچھ اس کیس میں ہوا کہ انیس کروڑ کی وصولی کے ساتھ ساتھ عطاالحق قاسمی کو مستقبل میں بھی کسی سرکاری عہدے پر تقرری پر بھی پابندی کر دی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔عطاالحق قاسمی کا واحد جرم ان کا نواز شریف کا ذاتی دوست ہونا تھا ورنہ وہ ہر لحاظ سے اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص تھے۔یہی دوستی ثاقب نثار کے دل کی گرہ تھی۔گمان کیا جاتا ہے اور اس کی تصدیق بھی کی جاتی ہے کہ اس کیس کے پیچھے سابق سیکرٹری اطلاعات کی سازش تھی اور وہی اس کیس کے محرک تھے۔پی ٹی وی کے چئیرمین کا اصرار تھا کہ ایم ڈی کے عہدے کے لیے موزوں انتخاب کے لیے اس کا مشتہر ہونا ضروری قرار دیا جائے۔اب عدالت عالیہ کے اسی فیصلے کے ساتھ وہ پابندی بھی ختم کر دی گئی۔اس طویل صبر آزما اور تھکا دینے والے عدالتی پراسیس کا بدیہی نتیجہ دوبارہ پی ٹی وی میں بطور چیئرمین کی تقرری کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے اور یہی تلافی مافات کی شکل ہے اور کچھ نہیں۔اس کیس کی کارروائی کے دوران کیا کیا بے بنیاد الزامات نہ لگائے گئے اور کس طرح جان بوجھ کر ذہنی تکلیف پہنچائی گئی۔بابا ولیم شیکسپئر تو فرما گئے کہ All is well that ends well بابا جی سے زیادہ انسانی نفسیات سے کون واقف ہو گا یہی وجہ تھی کہ قاسمی صاحب اب اس خبر کو خوب انجائے کر رہے تھے۔یہ محاورہ ولیم شیکسپیئر کے ایک مزاحیہ ڈرامہ سے ماخوذ ہے۔اس نے سچ ہی کہا ہو گا۔ رام پور ریاست جو کبھی ایک الگ اکائی تھی جہاں تین صدیوں تک مسلمان نواب خاندان نے حکومت کی۔ رام پور سے ہی مولانا محمد علی جوہر نے جنم لیا اطہر شاہ خان اور آفتاب شمسی کا خمیر بھی وہیں سے اٹھا۔خود عزیر بھی شمسی ہیں اور رام پوری بھی۔اور تو اور شبیر علی خان نے تو رام پور کا دبستان شاعری نامی ایک ضخیم کتاب بھی تحریر کی۔رام پوری شاعر خوب چہک رہا تھا۔ طویل مدت سے زیر ِسماعت فیصلے نے عطاالحق قاسمی کو نہال کر دیا تھا۔اسی خوشگواریت بھرے ماحول میں تاریخ کا صفحہ پلٹا کہ حبیب جالب نے مولانا عبدالستار نیازی کو اپنے گھر رات کے کھانے کی دعوت دی جو کافی لیت و لعل کے بعد قائد ِاہل سنت نے قبول فرما لی۔رات کو مولانا نے جالب کا دروازہ کھٹکھٹایا تو جالب کے والد باہر آئے ان کے پیچھے پیچھے جالب بھی آ پہنچے۔جالب نے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ابا جی آپ روزانہ پوچھتے تھے آخر تم کن لفنگوں کے ساتھ راتوں کو پھرتے رہتے ہو میں نے مناسب جانا کہ ان سے آپ کی ملاقات ہی کروا دی جائے۔کتنے بڑے لوگ تھے اور کتنا بڑا ان کا حوصلہ تھا۔کیا زمانہ تھا کہ گورنر عبدالرب نشتر سہ پہر کو اچکن میں ملبوس ہاتھ میں چھڑی لیے گورنر ہاؤس سے واک کے لیے نکلتے ریگل تک جاتے فٹ پاتھ پر لوگ سلام کرتے نشتر جواب دیتے اور واپس گورنر ہاؤس کی طرف چل دیتے۔ عزیر کے بزرگوں کا کیفے ڈی کراؤن، بیڈن روڑ چائنیز لنچ ہوم اور پاک ٹی ہاؤس کی کہانیاں تھیں کہ دامن ِدل کھینچ رہی تھیں۔پھولوں کے گلدستوں دو رنگی مالا بٹ سویٹس کی ست ذائقوں بھری مٹھائی اینکر پرسنز کی شائستگی شاعروں کی شاعری دانشوروں کی دانشوری اور حافظ جوس کارنر والوں کی محبت سے لبریز کھیر نے گلیمر ہائٹس میں واقع معاصر کے دفتر کو کیفے ڈی کراؤن میں تبدیل کر دیا تھا۔