مشیر کاظمی پاکستان کی قومی، فلمی اور رثائی یعنی مرثیہ نگاری کی شناخت ہیں۔ ان کا دل وطن کی مٹی سے محبت میں گندھا ہوا تھا۔ انہوں نے جو لکھا، اچھا لکھا اور دل سے لکھا ۔ جو بات دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے۔ ان کا زمانہ(22اپریل 1922، تا 8دسمبر 1975ئ) پُرآشوب تھا۔ انہوں نے پاکستان بنتے اور ٹوٹتے دیکھا۔ انہوں نے گیت، نغمے اور مرثیے لکھے مگر جو مرثیہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی (16دسمبر 1971ئ) کا لکھا، اس نے سب کو تڑپا اور رلا کر رکھ دیا۔ سقوط ڈھاکہ پاکستان بلکہ عالم اسلام کی تاریخ کا خونچکاں باب ہے جس کا حساب چکانا باقی ہے۔ مشیر کاظمی کی رثائی نظم ’’قبر اقبال پر‘‘ ہر درد مند پاکستانی کی آواز ہے۔ مشیر کاظمی صاحب نے یہ نظم مرکزیہ مجلس اقبال کی تقریب اولڈ کیمپس ہال لاہور 1972ء میں پڑھی۔ پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا بات ایسی ہے، کہنے کا یارا نہیں قبر اقبال سے آرہی ہے صدا یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں سقوط ڈھاکہ نے ہر مخلص پاکستانی اور مسلمان کو متاثر کیا۔ بعض نے یہ سانحہ زخم جگر بنا کر برداشت کیا اور بعض صدمے کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ جدید نظم و غزل کے معروف شاعر یوسف ظفر چند دن بھی زندہ نہ رہے اور شعر کہتے سانحہ کی نذر ہو گئے، مشیر کاظمی بھی 8دسمبر 1975ء کو فوت ہو گئے۔ پی پی پی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس بمقام لاہور 22-24فروری 1974ئ) کو سابق مشرقی پاکستان کو بطور جداگانہ آزاد ریاست بنگلہ دیش تسلیم کر لیا۔ یہ سانحہ بھی اہل دل اور درد مند پاکستانیوں کے لیے جانکاہ تھا۔ اگر دشمن نے خطۂ زمین جدا کیا تو تسلیم کر کے پاکستان اپنے آئینی، قانونی اور نظریاتی حق سے بھی محروم ہو گیا۔ سقوط ڈھاکہ پر تقریباً تمام پاکستانی شاعر، ادیب، مؤرخ، محقق، مصنفین نے لکھا۔کرنل فاروق پاک فوج کے بنگالی افسر تھے جنہوں نے راقم اور غزنوی کی موجودگی میں استاد گرامی پروفیسر محمد منور کو بمقام آواری ہوٹل، لاہور بتایا کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کو زندہ گرفتار کر کے غداری کا ’’مقدمہ‘‘ چلانا چاہتے تھے۔ نیز مشرقی و مغربی پاکستان کے دوبارہ متحد ہونے کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔ مگر شیخ مجیب الرحمن اور اس کے بیٹے مزاحمتی مقابلے میں مارے گئے اور مغربی پاکستان کی بھٹو انتظامیہ نے سب سے پہلے نئی بنگالی سرکار کو تسلیم کر کے راہ بند کی۔ 13 جنوری 2024ء کی سرد شام کو مولانا ظفر علی خان فائونڈیشن اور ایلاف کلب کی جانب سے کلیات مشیر کاظمی کی تقریب رونمائی ہوئی۔ یہ لاہور کی ایک یادگار علمی و ادبی شام تھی۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ سامعین اور مقررین پرجوش اور پرسوز تھے۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری اور دیگر اکابرین بھی موجود تھے۔ صدارت فائونڈیشن کے چیئر مین خالد محمود صاحب کی، مہمان خصوصی معروف صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب کی تھی۔ مہانان اعزاز میں مشیر کاظمی صاحب کے صاحبزادے ثقلین کاظمی اور صاحبزادی رضا ریاض تھیں۔ مقررین میں طالب نقوی، ڈاکٹر جواز جعفری، شعیب بن عزیز، ڈاکٹر شفیق جالندھری اور ڈاکٹر عمر عادل تھے۔ ڈاکٹر عمر عادل نے اپنی مدھ بھری پرسوز آواز کے جادو اور مشیر کاظمی صاحب سے وابستہ معلوماتی یادوں سے سامعین کو مسحور کیا۔ مشیر کاظمی صاحب کے بیٹے ثقلین کاظمی صاحب نے اپنے والد گرامی کی معروف رثائی نظم ’’قبر اقبال پر‘‘ اپنے والد کی طرز اور ترنم میں پڑھی جس نے سامعین کو اداس مگر محظوظ کیا۔ شام چوراسی گھرانے سے وابستہ ایک فنکار نے بھی مشیر کاظمی کا کلام اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو‘‘ سنایا اور خوب سما باندھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور متحدہ پاکستان سے وابستگی کے حوالے سے مجیب الرحمن شامی اور خالد محمود صاحب کی یادیں چشم کشا اور حوصلہ افزا تھیں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے بتایا کہ انہیں کئی بار بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا ایک بار جنرل ضیاء الحق کے وفد کا حصہ تھے۔ جنرل ارشاد متحدہ پاکستان کی حسین یادوں کا ذکر کرتے ہوئے تقریر کے دوران رو پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں مشرق و مغرب کے دونوں بازوئوں کو دوبارہ قریب لانے کے لیے خاصا کام کیا گیا تھا۔ استاد گرامی پروفیسر محمد منور مجیب الرحمن شامی، اعجاز الحق، عزیز الحق قریشی، الطاف حسن قریشی، سید صلاح الدین، سراج منیر وغیرہ کا ایک خیر سگالی وفد بنگلہ دیش گیا۔ میزبان اور عوام کی ایک ہی بات تھی کہ یہ وفد بہت پہلے آنا چاہئے تھے۔ استاد گرامی نے یہ بھی بتایا کہ تقریبات کے لیے قناتیں پاکستانی جھنڈے کے ہم رنگ بنائی اور لگائی جاتی تھیں جبکہ حسینہ واجد کے دور میں میرے ایک اعلیٰ پولیس افسر دوست احمد مکرم کو پیشہ وارانہ دورے پر ڈھاکہ جانا ہوا اور پولیس ہیڈ کوارٹر کی عمارت کی زمین پر پاکستانی جھنڈا اور دیواروں پر پاک فوج کی فرضی مظالم کی تصاویر آویزاں کر رکھی تھیں۔ ۔ شرمیلا بوس کی بنگلہ دیش کے قیام کے 1971ء کے دوران کے اعداد و شمار میں پاک فوج کے فرضی مظالم کی غیر حقیقی داستان کو تحقیقی بیان سے رد کیا گیا ہے۔ خالد محمود صاحب کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ ٹیم ڈھاکہ لے کر گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سارک کا کرکٹ میچ تھا۔ میچ سے قبل سارک ٹیموں کے سربراہوں کی وزیر اعظم حسینہ واجد(غالباً 1997-98ئ) میں ملاقات ہوئی۔ مجھ سے پہلے چوتھے نمبر پر بھارتی ٹیم کا سربراہ تھا۔ اگلے دن پاک بھارت میچ تھا، سٹیڈیم میں 50ہزار سامعین کی گنجائش تھی اور مجھے خدشہ تھا کہ شائقین بھارتی ٹیم کی حوصلہ افزائی کریں گے اور یہ امر پاکستانی ٹیم کے لیے حوصلہ شکن ہو گا۔ مگر شائقین عوام کا معاملہ الٹ تھا۔ شائقین پاکستانی کھلاڑیوں کے چوکے، چھکے مارنے پر بھرپور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ مسجد المکرم میں نمازیوں کا ایک ہی سوال تھا کہ بھارتی ٹیم سے ہارے کیوں؟ خالد محمود صاحب نے مزید بتایا کہ بنگالی مسلمانوں کا گلہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت مغربی پاکستانی عوام نے کارسازوں‘‘ کا ہاتھ کیوں نہیں روکا ۔ سامعین کی فرمائش تھی کہ مجیب الرحمن شامی صاحب اور خالد محمود صاحب اپنی یادیں کتابی شکل میں رقم کریں۔ مشہور فلمی نغموں ’’چاندنی راتیں‘‘ سب جگ سوئے ہم جاگیں، تاروں سے کریں باتیں،اور تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، آنکھوں میں انتظار کی دنیا بسا گئے‘‘ کے وجۂ اظہار بیان کر کے سب کو حیران کر دیا گیا کہ ہم بیڈن روڈ کے ایک بالائی منزل میں رہائش پذیر تھے۔ تین دن گزر گئے تھے۔ گھر میں فاقہ تھا، والد گرامی مقروض تھے اور گھر کے دروازے پر ایک پہلوان بیٹھا تھا جس سے والد گرامی نے قرض لے رکھا تھا، جو وصولی کے لیے ڈیرے لگا کر بیٹھا تھا۔ اس دوران والد گرامی کے ایک ملاقاتی آئے، آواز دی کہ کام پر کیوں نہیں آ رہے۔ والد گرامی نے جواب میں صورتحال بیان کی۔ ملاقاتی نے کہا کہ میں کھانا لے کر آتا ہوں اور پھر وہ نہ آئے اور والد گرامی چھت پر بچھی چارپائی پر لیٹ کر تارے گنتے اور کھانا لانے والے کا انتظار کرتے رہے۔ ثقلین کاظمی صاحب نے بتایا کہ والد گرامی کی وفات کے وقت بنک میں دو روپے اور کچھ ٹکے تھے۔