جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کابینہ سے مستعفی ہو کر ایوب مخالف سیاست شروع کی تو اُنہوںنے اپنا بیانیہ اس بنیاد پر بنایا کہ ایوب حکومت میں دولت چند ہاتھوں میں چلی گئی۔ چند خاندان انتہائی امیر ہوگئے ہیں جبکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت غریب سے غریب تر ہوگئی ہے۔ بھٹو صاحب نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان کے بائیس خاندان پاکستان کی ساری دولت پر قابض ہوگئے ہیں۔ ایوب حکومت کی معاشی پالیسیوں سے دولت چند خاندانوں نے ہتھیالی ہے۔ بھٹو صاحب نے 30 نومبر1967 ء میں لاہور میں پیپلز پارٹی کے ایک بانی لیڈر ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت گاہ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا تو اُس میں ’’سوشلزم ہماری معیشت‘‘ کا نعرہ اپنایا۔ یہ وہ دور تھا جب کہ عالمی سطح پر سوشلسٹ نظام کی حمایت بڑھ رہی تھی۔ سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین دو بڑی کمیونسٹ طاقتیں وجود میں آچکی تھیں۔ مشرقی یورپ کے ممالک بھی سوویت یونین کے حلقہ اثر میں شامل ہوگئے تھے۔جنوبی امریکہ، ایشیاء اور افریقہ میں سوشلزم کے حامی لیڈر اُبھر رہے تھے۔ اس ماحول میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تو اُنہیں عوامی سطح پر بڑی حمایت حاصل ہوئی ۔ اس سے قبل مزدور کسان پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور چند دوسری جماعتیں بھی بائیں بازو کی جماعتوں کے طورپر جانی جاتی تھیں۔ بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور کشمیر پر بھارت مخالف مضبوط بیانیے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو پنجاب میں بہت مبقول تھے۔ پنجاب سندھ اور (فرنٹیئر) خیبر پختونخواہ میں بھی اُن کی حمایت میں زبردست اضافہ ہوا۔ اپنی انتخابی تقریروں میں بھٹو نے 22 خاندانوں کو ٹارگٹ کیا اور لوگوں کو قائل کرلیا کہ ایوب خان کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ امیر تو امیر سے امیر تر ہوگیا ہے اور غریب ، غریب تر ہوگیاہے۔ بھٹو کے بائیس خاندانوں کے خلاف بیانیہ کو بہت پذیرائی ملی اور دسمبر1970 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے انتخابات کو سویپ کرلیا۔ مغربی میں پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 80 سے زیادہ نشستیں مل گئیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی پی کی حکومت نے بائیس خاندانوں پر ہاتھ ڈالا اور اُن کی ملیں، بینک، انشورنس کمپنیاں قومی ملکیت میں لے لیں۔ بھٹو کے مخالفین اُن کی نیشنلائزیشن پالیسی کو معیشت کی تباہی کا سبب قرار دیتے تھے۔ بہر حال بائیس خاندانوں کے پاس ملکی دولت ہونے کا نعرہ مقبول ہوگیا اور بھٹو1970 ء کے انتخابات جیت گئے ۔ اُس زمانے میں پی پی پی کے جلسوں میں کھیت وڈیروں سے لے لو ملیں امیروں سے لے لو ایسے شعر عام طورپر پڑھے جاتے تھے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک مغربی خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں اس ریسرچر خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں مقامی میڈیا مسلسل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ پاکستان میں ایک مراعات یافتہ طبقہ جسے اشرافیہ کا نام دیا گیاہے، اقتدار پر قابض ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یواین ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ’’اشرافیہ‘‘ میں سول اور فوجی آفیسر ، بزنس مین اور سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ ساڑھے سترہ ارب ڈالر سالانہ کی مراعات لے رہے ہیں جب کہ کروڑوں لوگ افراط زر کے بوجھ کی وجہ سے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جس خاتون کی ویڈیو کا ذکر میںنے کیا ہے اُس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ساری دولت 100 خاندانوں کے پاس چلی گئی ہے۔ اس طرح کے دعوے کئی اور معیشت دان اور تجزیہ کار کر رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں جو بائیس خاندان اُبھرے تھے ان میں وہ لوگ شامل تھے جن کے پاس پہلے بھی کوئی نہ کوئی انڈسٹری یا کاروبار تھا۔ ایوب حکومت میں ان لوگوں کو قرضے دئیے گئے اور ملک میں انڈسٹری لگانے کیلئے اُن کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ لیکن حالیہ دو یا تین دہائیوں میں جو ایک سو (100 ) خاندان یا شاید اس سے بھی زیادہ دولت مند طبقہ سامنے آیا ہے ۔اُس کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اس طبقہ نے اپنی سیاسی حیثیت یا سرکاری منصب سے فائدہ اُٹھا کر مال بنایاہے۔اشرافیہ، کا یہ طبقہ سرکاری مراعات ، ٹیکس چور ی اور دوسری وارداتوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر پیسہ بنا رہاہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ یہ طبقہ سرکاری افسران اور اہل کاروں کو اپنے دھندے میں حصے دار بنالیتاہے اور من مانے فیصلے کرا لیتاہے۔ حالیہ چند برسوں، کم وبیش ایک دہائی میں رئیل اسٹیٹ، زمینوں کی خریدوفروخت کرنے والا طبقہ اربوں ڈالر بنا چکاہے ۔ اس طبقہ کے افراد کا ٹیکس ریکارڈ چیک کیا جائے تو چند لاکھ روپے کا ٹیکس بھی ان افرادنے قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ ٹیکس وصول کرنے والی مشینری خود بھی کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے۔ اسلئے ٹیکس چوری کرنا بہت آسان ہے۔ سرکاری منصوبوں میں کمیشن خور مافیا بھی اربوںروپے سالانہ ہڑپ کررہاہے۔ ایسی خبریں میڈیا میں سامنے آرہی ہیں کہ قومی خزانے سے تعمیراتی منصوبوں کیلئے اربوں کی رقوم نکال کر کئی اعلیٰ سرکاری افسر رقم سمیت بیرون ملک فرار ہوگئے ہیں۔ ایک سابق آرمی چیف سے منسوب یہ بیان کئی مواقع پر سامنے آیاہے جس میں انہوںنے کہا کہ چند سو افراد کو پکڑ کر اُن کو لٹکا دیاجائے توپاکستان کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ بھٹو صاحب نے بائیس خاندانوں کو پاکستان کی معاشی ابتری کا ذمہ دار قرار دیا تھا، اب بائیس کی جگہ کئی سو خاندان پیدا ہو چکے ہیں جو قومی دولت پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں اور لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں۔ جرائم سے مال بنانے کا رُجحان عام ہے۔ جہاں تک صنعت کاری کا تعلق ہے پاکستان میں گزشتہ چند برس میں صنعتوں میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں نوجوان جائز و ناجائز طریقوں سے روزگار کی تلاش میں ملک ملک ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭