ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ہم دوستوں کے مشوروں کو نظرانداز کرتے آئے ہیں۔چین ، سعودی عرب ، عرب امارات ، ملائشیا اور دیگر دوست ملک ہمیں مشورہ دیتے رہے ہیں کہ ہم داخلی استحکام کی طرف توجہ دیں ،امن اور استحکام ہی معاشی ترقی کی بنیاد ھے۔ چین کے وزیر خارجہ نے چند ہفتے بہلے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان داخلی امن اور استحکام کی طرف توجہ دے۔قریب بیس سال پہلے چین کے صد ر ہو جن تاو نے ہماری پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کچھ عرصہ کے لیے مسئلہ کشمیر کو منجمد کر دے یعنی فریز کر دے اور معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دے۔ چین نے نے اس فلسفے پر عمل کیا ۔اس نے "ملک کے اندر اور باہر امن" کے اصول پر عمل کیا۔گزشتہ ستر برس میں چین نے کسی ملک کے ساتھ جنگ نہیں کی۔ تائیوان کو اپنا خطہ قرار دینے کہ باوجود چین نے تائیوان سے جنگ نہیں کی۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ جاری برسوں کی کشیدگی کے بعد دوستی کر لی ہے ۔اسلامی ملکوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔چین اور سعودی عرب کے علاوہ دوسرے دوستوں نے بھی ہمیں یہ مشورہ دیا کہ ہم پہلے معیشت کو بہتر کریں ملک کے اندر سیاسی افراتفری ختم کریں۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہمیں ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا ۔مغربی ملکوں کایہ بیانہ ایک عرصے سے جاری ہے کہ پاکستان معاشی طور پہ کمزور ملک ہے یا یہاں دہشتگردی کے اڈے ہیں ۔اور دہشت گرد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔پاکستان نے افغانستان میں جاری برسہا برس کی مداخلت کے خلاف بیرونی طاقتوں کا ساتھ دیا ۔ پہلے سوویت یونین اور بعد میں امریکہ کی مداخلت میں فریق بننے والے پاکستان کو ان جنگوں میں اربوں ڈالر ملے لیکن یہ پیسے اس کی معیشت کو بہتر نہ بنا سکے۔امریکہ نے تین سال پہلے طالبان کے ساتھ معاہدہ کر کے اقتدار طالبان کو دے دیا ۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی ختم نہیں ہو سکی۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ملک بے روزگاری کی دلدل میں پھنس گیا ہے ۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں بے روزگاری کا مرکز بنتی جا رہی ہیں ۔بیرونی سرمایہ تو کیا آتا پاکستان کے اپنے سرمایہ کار اب سرمایہ ملک سے باہر لے جا رہے ہیں۔سیاسی کشیدگی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، مارا ماری جاری ہے۔عمران خان کی پارٹی اگر ختم ہوجائے تو کیا پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ وزیراعظم خود معاشی اتفاق رائے کی تجویز دے چکے ہیں۔ سیاست بازی کو نظرانداز کر کے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ہم مانگ تانگ کر گزارا کر رہے ہیں۔اس صورتحال پر ہمارے دشمن خوش ہیں کہ آپ اپنے دام میں صیاد ا گیا عمران خان کے بعد کی صورت حال پر اب غور ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کو چھو ڑنے والوں نے "استحکام پاکستان " کے نام سے نئی جماعت بنا لی ھے۔ یہ پارٹی انتخابات میں کیا گل کھلائے گی، دیکھنا باقی ہے۔بجٹ میں انتخابات کے لے رقم رکھ دی گئی ھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ھے کہ اگلے انتخابات سے بھی ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ موجودہ بجٹ ڈنگ ٹپاو ہے۔اصل بجٹ اگلی حکومت بنائے گی۔اس وقت معیشت کو مضبوط بنانااھم ھے۔معیشت نہ بہتر ھوئی تو ملک نئے بحران میں گھر جائے گا۔وزیراعظم کہتے ہیں کہ میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔فیصلہ ساز اداروں کو وقت ضائع کیے بغیر معیشت کو بہتر بنانے کو ترجیح دینی چاہیے اب دنیا ہمارا انتظار نہیں کرے گی۔ اگلے انتخابات کے بعد بھی اگر سیاسی بے چینی جاری رہتی ہے تو ملک کا کیا بنے گا۔ قیادت کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔ جو سیاسی تلخی عمران خان کے باعث اور ان کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اس پر قابو پانے کے لئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ھم اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن وہ ہمارے روئیے سے مطمئن نہیں۔ امریکہ تو اب بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر بن گیا ہے۔ اسی ماہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اھم مذاکرات ھوں گے جن میں بھارتی فضائیہ کے لیے جدید انجن بھارت میں بنانے کا سمجھوتہ ھو گا۔ بھارت امریکہ سے جدید دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ھے ۔ہمارے لئے جس کے مضمرات ہوں گے۔ بھارت دنیا کی سپر طاقت بننے کی پوری کوشش میں ھے۔ اب تو کئی بھارتی لیڈر کہہ رہے ہیں کے پاکستان ھمارے ریڈار پر نہیں ، ھم تو چین کے بارے میں پریشان ہیں۔ سعودی عرب بھی ہمیں مشورہ دے رہا ھے کہ ھم اپنا رویہ بدلیں۔ اب ھمیں غیر مشروط طور پر مالی امداد نہیں ملے گی ۔ ان حالات میں قومی قیادت اور عسکری اداروں کو سر جوڑ کر سوچنا ھو گا کہ ھم اس سمت میں کب تک چل سکتے ہیں۔ نیا پاکستان نہیں تو پھر پرانا پاکستان ھی سہی جو کم سے کم دنیا کے لیے اھم تو تھا۔ اب ھماری وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔قومی قیادت کے لئے یہ بڑا چیلنج ھے۔ قوموں کی زندگی میں مشکل وقت آتا ھے۔ وہ مشکلات پر قابو پانے کے لئے مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے قومی ایجنڈ ا طے کر لیتی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہ فیصلہ کن مرحلہ ھے۔ مزید وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں ھے۔جو نقصان ھو چکا ھے اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔پرانی سیاست گری اب خوار ھے۔ اکیسویں صدی کے بیس برس گزر چکے ۔ملکی آبادی کا بیشتر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ھے۔ نوجوان ہی ایک خوشحال پاکستان بنا سکتے ہیں۔نئی نسل کی تعلیم اور تربیت کے لے ساری سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابی منشور وں میں پروگرام پیش کرنا چاہئے۔تحریک انصاف نوجوانوں کے لیے کچھ نہ کر سکی تا ھم اس نے نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ اس کے پاس نوجوانوں کی ترقی کا ایجنڈ ا ھے۔جو جماعتیں تحریک انصاف کی جگہ لینا چاہتی ہیں انہیں نوجوانوں کے لئے ایک جامع پروگرام دینا ھو گا۔ صرف ملامت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔وقت آگیا ھے کہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ھے کہ فیصلہ ساز نوجوانوں کی اس قوت کو کس طرح قومی ترقی کے لے بروئے کار لاتے ہیں۔