تحریک انصاف کے رہنما قاسم سوری ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی تھے، انھوں نے اسمبلی کی تحلیل کی رولنگ دیدی، جسے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے بینچ نے کالعدم قرار دیدیا، جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں گھر بھیج دیا گیا، 9 اپریل 2022 کو رات بارہ بجے عدالتیں کھل گئیں، رات کی عدالتوں پر وطن عزیز میں تشویش کی لہر دوڑ اٹھی لیکن عمران خان اور تحریک انصاف نے عدلیہ پر ایسے وار نہیں کیے، جس قسم کا وطیرہ پی ڈی ایم اور حکومت دیکھا رہی ہے، مریم نواز نے جس طرح کی ٹویٹ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف کی ہے، کیا آئین اور قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟ چیف جسٹس کو تحریک انصاف کا کارکن بننے کے مشورے دیے جارہے ہیں، سونے پر سہاگہ پی ڈی ایم اجلاس کے بعد فضل الرحمان نے پیر کے روز 15 مئی کو سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں، انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس طرح کا ریلیف نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری اور فریال تالپور وغیرہ کو کیوں نہیں دیا گیا، نواز شریف پچاس روپے کے سٹام پیپر پر علاج کی غرض سے لندن گئے تھے، کیا یہ تاریخ کا انوکھا ریلیف نہیں ہے، لندن سے یورپ کی سیر کو جایا جاسکتا ہے، سعودی عرب میں عمرہ کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے، مخترمہ مریم نواز نیب آفس لاہور پر کارکنوں کے ہمراہ حملہ آور ہوسکتی ہیں، لاہور ہائیکورٹ سے نیب کو ہدایت کی جاسکتی ہے کہ مخترمہ کو گرفتار کرنے سے دس روز پہلے آگاہ کیا جائے، ان کو ریلف ملے تو ٹھیک ہے اور کسی کو مل جائے، اسے غلط کہا جاتا ہے، مخالفین کو سزائیں ہوں، بغلیں بجا کر عدلیہ کی تعریف کے پہاڈ کھڑے کردینے جاتے ہیں، کیا جب قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا گیا تو مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری نے موجودہ چیف جسٹس اور اسی سپریم کورٹ کی تعریف میں آسمان اور زمین کے قلابے ایک نہیں کردئیے گئے تھے، بات بڑی سادہ ہے کہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس و مربوط بیانیہ ہے نہ کارکردگی! لہذا وہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کے خلاف اقدامات اٹھانا اسکی سیاسی ساکھ کیلئے ازبس ضروری ہے حالانکہ زمینی حقائق اس سے بالکل متصادم ہیں، موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث گزشتہ ایک سال ایک ماہ کے دوران ملک کی معشیت اس حد تک تباہ و برباد ہوچکی ہے کہ عام آدمی کیلئے زندگی بسر کرنا انتہائی کٹھن ہوچکا ہے، ایسے میں عام پاکستانی کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے اور حکومت جیسے ہی عمران خان کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے تو عوام اسے اپنے حقوق اور خوشحالی کے خلاف اقدامات تصور کرتی ہے۔ سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کو اس گرفتاری کو غیر قانون قرار دیتے ہوئے اس انداز میں گرفتاری کو اغواء بالجبر قرار دینا چائیے تھا، عمران خان پر تاوقت 145 سے زائد مقدمات درج ہیں، ان میں سے کسی مقدمے میں کوئی جان نہیں ہے، نہ کوئی ٹھوس الزام ہے، االقادر یونیورسٹی اراضی کیس میں تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اس زمین کی کل مالیت ایک ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نہیں، یہ بنجر زمین ہے، اس طرح کے مقدمات سے کیا نکل سکتا ہے لیکن مریم نواز کہتی ہیں کہ چیف جسٹس صاحب آپ نے اپنے منصب کو تحریک انصاف کے کارکن کے طور پر استعمال کیا ہے، نواز شریف کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے عمران خان کو دیکھ کر یہ کیوں کہا آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے، اس طرح کے طعنوں اور باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، عوام سب دیکھ رہے ہیں، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ہر شخص رپورٹر بنا ہوا ہے، جب حکومت طاقت کے استعمال کیلئے ڈرانے دھمکانے سے باز نہیں آرہی اور گرفتاریوں کی برسات کررہی ہے تو عوامی نفرت میں اضافہ جاری ہے، پولیس گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ تک کرے، اس پر حکومت نے کیا عوامی حمایت حاصل کرنی ہے، عثمان ڈار کے گھر میں یہ سب کچھ عوام سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں، انکی والدہ کیساتھ جو سلوک کیا گیا، اس کی کون حمایت کرسکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح جس طرح جلاؤ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ کا کوئی جواز اور حمایت نہیں، عوام خود سوال کررہے ہیںکہ توڑ پھوڑ کے پیچھے کون ہے؟ تاہم سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان اونچی اور جوشیلی آواز میں کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا، پی ڈی ایم سربراہ نے عوام کو بھی بھرپور انداز میں شرکت کرنے کی دعوت دی ہے، عوام نے کبھی بھی اس دھرنے میں شامل نہیں ہونا، جمعیت علماء اسلام، ن لیگ اور پیپلز پارٹی وغیرہ اپنے کارکنوں کو دھرنے میں لا تو سکتی ہے لیکن یہ فیصلہ کیا درست ہے، جس کی خواہش پی ڈی ایم اجلاس میں نواز شریف نے کی، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملے کا داغ تو آج تک مٹایا نہ جاسکا، اب اس کا داغ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں پر لگ سکتا ہے، پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کا بھی امتحان ہوگا کہ اسلام آباد میں کسی قسم کے بھی احتجاج اور عوامی اجتماع پر پابندی خود ہی عائد کر رکھی ہے، مولانافضل الرحمان لاکھ کہیں ڈنڈے، مکے سے جواب دیا جائیگا، 15 مئی کو 14 مئی کے پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے سماعت ہوگی، گڑ بڑ کی گئی تو بڑی وکلاء تحریک اٹھ کھڑی ہوگی، حکومت کے گلے ایک نیا محاذ کھل جائیگا جبکہ سپریم کورٹ اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی، کیا یہ بات درست ہے کہ ن لیگ اور حکومت وزیراعظم کی نااہلی چاہتے ہیں؟ ایمرجنسی اور مارشل لاء کی بازگشت کیسی ہے؟